افریقہ:سرمایہ کاری کیلئے وسیع مواقع کی سرزمین

تحریر: احسن ظفر بختاوری
صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری

سوا ارب سے زائد آبادی،وسیع و غریض لینڈ سکیپ اور بے پناہ مواقع کا حامل بر اعظم افریقہ اس وقت دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں کیلئے دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے،چائنہ اور انڈیا اس فہرست میں سب سے اوپر ہیں جو بر اعظم افریقہ میں قدم جمانے کی کوششوں میں مصروف ہیں،ٹرانسپورٹ سے لے کر صحت،تعلیم،انفراسٹرکچر اور انڈسٹری ہر شعبے میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں،سوال یہ ہے کہ پاکستان اس مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے کیا کر رہا ہے،اور 23کروڑ کا ملک ہونے کے ناطے ہم کیا کر سکتے ہیں،یہاں کچھ کام تو حکومت کے کرنے کے ہیں اور گزشتہ چند سالوں میں حکومتی سطح پر افریقہ کے حوالے سے کافی پیش رفت سامنے آئی ہے،مثلاء مختلف ممالک میں پاکستانی مشنز کی موجودگی کاروباری سرگرمیوں کیلئے ایک ناگزیر شرط ہے،کئی اہم ترین افریقی ممالک میں پاکستانی سفارتخانے کھل چکے ہیں،اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے وفد کے ہمراہ گزشتہ ماہ دورہ ایتھوپیا میں ذاتی مشاہدہ کیا کہ کیسے پاکستانی سفارتخانہ روایت سے ہٹ کر سرگرمی سے کام کر رہا ہے،اسی طرح حکومت نے ایک اور اہم ترین کاروباری سینٹر سینیگال میں بھی صائمہ سید جیسی کریئر سفارتکار کا حال ہی میں تقرر کیاہے جن کی ڈاکار میں موجودگی معاشی تعلقات کیلئے اہم ترین ثابت ہو گی،ڈاکار روانگی سے قبل چند روز قبل اسلام آباد چیمبر آمد اور کاروباری طبقے کے ساتھ ان کا مشاورتی سیشن اس بات کا ثبوت ہے کہ جلد اس ملک میں بھی سرمایہ کاری اور پاکستانی اشیاء کی برامدات کے حوالے سے اچھی خبریں سننے کو ملیں گی۔ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنازیشن گزشتہ کئی سالوں سے اب تسلسل کے ساتھ تجارتی نمائشوں کا انعقاد کر رہا ہے۔یہ بھی ایک بھرپور کوشش ہے کہ کہ پاکستانی پروڈکسٹس کو دنیا کے ان اہم ترین سینٹرز تک پہنچایا جائے،اس کے علاوہ وزات تجارت کی سرگرمیاں بھی پاکستان کی لک افریقہ پالیسی کو پرموٹ کر رہی ہیں،یہاں حکومتی سطح پر ایک مسئلہ ہے کہ چیزوں کا ٹھک طریقے سے فالو اپ نہیں ہو پاتا،افریقہ کے ان اہم ترین تجارتی مراکز میں پاکستانی سرمایہ کاری کی موجودگی اور ملکی مصنوعات کی افریقی منڈیو ں تک رسائی یقینی بنانے کیلئے وزات خارجہ،دیگر وفاقی وزارتوں،صوبائی حکومتوں اور بیورو کریسی کی سطح پر ہمیں جارحانہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔تجارتی معاہدوں میں تاخیرسمیت دیگر چھو ٹے چھوٹے مسائل ایسے ہیں جو پاکستانی بزنس کمیونٹی کیلئے رکاوٹ بن رہے ہیں۔اسلام آباد میں موجود بعض افریقی ممالک کے سفراء کی سرگرمیاں انتہائی حوصلہ افزاء ہیں،ان کی سرگرمیوں کا مرکزی نقطہ کاروبار،سرمایہ کاری اور امپورٹ ایکسپور ٹ ہیں،مثلاء ایتھوپیا کے پاکستان میں سفیر تجارتی تعلقات کیلئے اتنے متحرک ہیں کہ ان کی تعیناتی کے بعد شاید ہی کوئی ماہ گزرا ہو جس میں انہوں نے کسی چیمبر یا دورہ نہ کیا ہو،اسی طرح افریقہ،کینیا اور دیگر ممالک کے سفیر بھی انتہائی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ایتھوپیا،نائجیریا،سینیگال،کینیا، جنوبی افریقہ سمیت درجنوں افریقی ممالک پاکستانی سرمایہ کاروں کے منتظر ہیں،ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بر اعظم افریقہ میں صرف زرعی شعبے میں سرکامیہ کاری کیلئے بنگلہ دیش اور چین جیسے ممالک نے وسیع پیمانے پر معاہدے کیے ہیں،پاکستان اس موقع سے کیوں فائدہ نہیں اٹھا سکتا،ہمارے ملک کا زرعی نظام انتہائی مضبوط ہم اپنے تجربات سے افریقی سرزمین پر انقلاب لا سکتے ہیں،وسیع و غریض افریقی لینڈ سکیپ مختلف فصلوں کیلئے بہترین جگہ ہے اگر وہاں محنت کی جائے تو نا صرف افریقی ممالک میں خوراک کی کمی کیلئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں بلکہ بھاری زرمبادلہ بھی پاکستان لایا جا سکتا ہےایشیاء میں معاشی سپر پاورز انڈیا اور چائنہ اس وقت افریقہ میں قدم جما چکے ہیں،زراعت اور فارما سوٹیکل سمیت کئی شعبوں میں بھارت بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے، گزشتہ 20سالوں سے بھارتی حکومت اور نجی شعبے کی افریقی ممالک کی طرف بھرپور توجہ ہے،پاکستان اگر چہ چائنہ کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں جس کی کئی وجوہات ہیں مگر افریقی مارکیٹ میں انڈیا کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمارے پاس بھرپور مواقع موجود ہیں۔انڈیا آئی ٹی کے شعبے سے سالانہ کھربوں روپے کما رہاہے،اگر چہ پاکستان نے بھی حالیہ عرصہ بھی اس شعبے میں بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں،کئی انٹر پینور کمیپنیز وجود میں آئی ہیں،پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوا ہے مگر بھارت پاکستان سے کہیں آگے ہے،بھارت اب مختلف افریقی ممالک کے ساتھ آئی ٹی کے حوالے سے معاہدہ کر رہا ہے،پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری کیلئے نادر موقع ہے کہ وہ بھی بر اعظم افریقہ تک رسائی حاصل کریں،جہاں اس شعبے میں امکانات کا ایک جہاں آباد ہو سکتا ہے،پاکستان کے پبلک سیکٹر کا شاہکار نادرا پہلے ہی نائجریا سمیت بعض ممالک کو سروسز فراہم کر رہا ہے،اسی طرح پرائیوٹ شعبہ بھی آئی ٹی سروسز،پروڈکٹس اور انڈسٹری کے میدان میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے،یہاں پر پھر ان ممالک میں موجود پاکستانی سفارتخانوں کا کردار انتہائی اہم ہو گا،پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کے پاس کئی ایسے برینڈ ہیں جو افریقی مارکیٹ میں انقلاب لا سکتے ہیں،اتنی بڑی آبادی کو سروسز فراہم کرنا اربوں ڈالر کی کمائی کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔افریقی ممالک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر بھی ایک ایسا شعبہ ہے جہاں پاکستان پاکستانی سرمایہ کاریوں،تعمیرانی کمپنیز کی نظر ہونی چاہیے،افریقہ کے کئی ممالک اس وقت انفراسٹرکچر کے میدان میں انتہائی انڈر ڈیولپ ہیں،سڑکوں سے لیکر برجز اور ہاؤسنگ کالونیوں تک وسیع اور غریض انفراسٹرکچر تعمیر کیا جانا ہے،جس کیلئے ایک بار پھر پاکستانی سرمایہ کاریوں کو انڈیا اور چائنہ کا مقابلہ کرنا ہے۔افریقہ کا اہم ترین کاروباری سینٹر اور تیل کی دولت سے مالا مال نائجریا کی تعمیر میں پاکستان انجنیئرز نے اہم کردار ادا کیا ہے اب پاکستانی کمپنیز کیلئے موقع ہے کہ وہ اس شعبے میں اپنی مہارت کا ثبوت دیں۔صحت اور تعلیم بھی ایسا شعبہ ہے جس میں افریقہ پاکستانی سرمایہ کاریوں کیلئے بہترین منزل ہو سکتا ہے،پاکستان کے کئی تعلیمی ادارے بالخصوص میڈیکل کے شعبے میں مختلف افریقی ممالک میں کام کر رہے ہیں، بر اعظم افریقہ کو صحت اور تعلیم کے شعبے میں سب سے زیادہ کام کی ضرورت ہے،پاکستان نامور پرائیوٹ سیکٹر یونیورسٹی کا کیمس گھانا میں کامیابی سے کام کر رہا ہے،دیگر اداروں کو بھی اس سمت میں قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔پاکستان اور افریقہ کو قریب لانے کیلئے حکومتی سطح پر معاہدوں کی ضرورت ہے،حکومت سرپرستی میں پاکستانی چیمبر آف کامرس اور افریقی کاروباری اداروں کے در میان شراکت داری کو بہتر بنانے کیلئے کام کی ضرورت ہے،پاکستانی کاروباری وفود کے مستقل بنیادوں پر افریقی ممالک کے دوروں کا انتظام ہونا چاہیے،اس شعبے میں درپیش رکاوٹوں کو حکومتی سطح پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔اسلام آباد چیمبر نے افریقی ممالک بالخصوص ایتھوپیا،نائجریا کے ساتھ شراکت داری کے مواقع پیدا کرنے کیلئے مختلف اقدامات کیے ہیں،20سال بعد کراچی ایئر پورٹ پر ایتھیوپین ایئر لائن کی براہ راست پرواز ایک خوشگوار جھونکا ہے،جس کیلئے اسلام آباد چیمبر نے بھی اپنی کوششیں کی ہیں،پاک ایتھیوپیا بزنس فورم کی میزبانی اسلام آباد چیمبر کا ایک اور قدم ہے جو پاکستان اور افریقی کی کاروباری شراکت داری کو مزید بہتر کرنے کا سبب بنے گا۔گزشتہ ماہ اسلام آبادچیمبر کے وفد کے ہمراہ دورہ ایتھیوپیا کے موقع پر ہم نے قریب سے دیکھا کہ دونوں جگہوں پر کاروباری تعلقات کو وسعت دینے،شراکت داری کو مضبوط بنانے کی شدید خواہش موجود ہے،اس کو حکومتی سرپرستی چاہیے،تجارتی شراکت اری بہتر بنانے کیلئے حکومتی سطح پر معاہدے ہونے چائیں۔