نوجوان کیوں ناراض ہے؟

موجودہ سیٹ اپ کو اقتدار میں اس لئے لایا گیاتھا کہ یہ اکانومی کو ٹھیک کرکے عوام کو ریلیف دیںگے لیکن ان سے نہ تواکانومی ٹھیک ہورہی ہے‘ نہ ہی روزگار کے ذرائع پیدا ہورہے ہیں بلکہ کارخانے بند ہورہے ہیں‘ جو مزید بے روزگاری کا سبب بن رہے ہیں۔ ان حالات کے سب سے زیادہ منفی اثرات نوجوانوں پرپڑرہے ہیں۔ (جن کی اس وقت تعداد 60فیصد سے زیادہ ہے) ان میں اکثریت ملک کو چھوڑ کر جاناچاہتی ہے، تقریباً آٹھ لاکھ نوجوان ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہےکیونکہ کسی ملک کا سب سے بڑا مضبوط سرمایہ نوجوان ہوتے ہیں لیکن پاکستان کے سیاسی ماحول نے انہیں اتنا بددل کردیا ہے کہ وہ ہرحال میں ملک کو چھوڑ کرجانے پرمجبورہورہےہیں۔ ان ساٹھ فیصد نوجوانوں میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں شامل ہیں۔پڑھے لکھے نوجوان توکسی طرح ملک کو چھوڑ کر جارہے ہیں۔ (brain drain) لیکن ان پڑھ نوجوانوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ پاکستان میں ہی رہ کر اپنا پیٹ پالیں گے لیکن معاشی حالات ایسے نہیں ہیں کہ انہیں کوئی روزگار مل سکے۔ بھوک، ناامیدی اوربے روزگاری ان کامستقبل ہے۔ اگر پاکستان کا سیاسی نظام اچھا ہوتا تو یقیناً حکومت کی تمام تر کوشش ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنے پر مذکورہ ہوتی لیکن ایسا نہیں ہورہاہے۔ ہر طرف ایک افراتفری کاماحول ہےجبکہ قانون اور آئین کااصلاحی اطلاق کہیں نظر نہیں آرہاہےبلکہ عدالتوں بدنام کیاجارہاہے۔ اس لاقانونیت نے جرائم پیشہ عناصر کو ایساحوصلہ بخشا ہے کہ وہ دن دھاڑے چوری چکاری کرنے سے باز نہیں آرہے ہیں بلکہ اگر ان کی مزاحمت کی جاتی ہے تو وہ مزاحمت کرنے والے کو قتل بھی کردیتے ہیں۔
چنانچہ ان انتہائی تکلیف دہ سیاسی، معاشی اور سماجی حالات نے پاکستان کے نوجوانوں کو اتنا مایوس کیاہے کہ وہ وطن چھوڑنے پرمجبور ہیں۔ جب ان کو ملک کے اندر انہیں ان کی تعلیمی اہلیت وصلاحیت کی روشنی میں روزگار نہیں ملے گا تووہ واحد راستہ ملک سے فرارکاہے جس کی وجہ سے ملک کو آئندہ برسوں میں پڑھی لکھی مین پاور نہ ہونے کی صورت میں غیر معمولی صورتحال کاسامنا کرناپڑے گا۔ جن ملکوں نے نوجوانوں کے لئے روزگار کے دروازے کھول دیئے ہیں وہ ترقی کررہے ہیں جبکہ پاکستان کانوجوان نہ صرف شدید مایوس ہے بلکہ اس کے سامنے باعزت ترقی کی کوئی روشنی بھی نظرنہیں آرہی ہے۔ حکومت کو نوجوانوں کے مستقبل یا پھر معیشت کو بہتر کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو گزشتہ ایک سال میں ان کی کچھ نہ کچھ کارکردگی نظر آتی لیکن ایسا نظرنہیں آرہاہے۔ حکومت کے اعصاب پرعمران خان سوار ہے، ہرروز عمران خان پر مختلف قسم کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں، ایسا معلوم ہورہاہے کہ حکومت کو ان کی سیاسی منظر سے ہٹاکر دم لے گی لیکن اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا مملکت میں سکون پیدا ہوجائے گا یاپھر بھی معیشت یکدم بحال ہوجائے گی اور نوجوانوں کے روزگار کے دروازے کھل جائیں گے؟ نہیں ایسا نہیں ہوگا بلکہ حالات مزید خراب ہونگے۔ حکومت کے سامنے کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ اگر تھا تو وہ مخالفین کے ساتھ اس حد تک لڑائی نہ کرتے کہ ملک کا مستقبل خطرے میں پڑ گیاہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح ؒنے نوجوانوں کو تلقین کی تھی کہ وہ اس نوزائیدہ مملکت کی تعمیر میں حصہ لےکراس کو مضبوط بنائیں۔ عالمی سطح پر اس کا نام روشن کریں۔ دراصل پاکستان کی تحریک اور اس کے قیام میں قائداعظمؒ کی قیادت میں نوجوانوں نے اپنا مثالی کردار اداکیاتھا اور قیام پاکستان کے بعد بھی وہ اس ہی جذبے اور لگن سے تعمیر وطن کے لئے کام کرتے رہے تھےلیکن اب یہ نوجوان سیاسی وسماجی حالات کو دیکھ کر نہ صرف مایوس ہوگیاہے بلکہ وہ فرار اختیار کررہاہے۔ تاجر اور صنعتکار جو ملک میں کارخانے قائم کرکے روزگار کے ذرائع پیداکرتے ہیں، وہ اپنے کارخانے بند کررہے ہیں اور اپنا سرمایہ باہر لے جارہے ہیں۔ یہ بھی ایک المیہ ہے جس پر جتنا دکھ کاا ظہار کیاجائے کم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام مملکت خداداد کو استحکام دینے میں ناکام ہوگیاہے۔ عدم استحکام نے معیشت کی ترقی کوروک دیاہے جبکہ اس تکلیف دہ صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لئے کوئی بندہ مومن نظر نہیں آرہاہے۔ اس لئے سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر اس صورتحال کو کون ٹھیک کرے گا؟ اور کس کے دل میں درد اٹھے گا کہ نوجوانوں کو باہر جانے سے روک سکے۔ ویسے یہاں یہ لکھنا بہت ضروری ہے کہ پڑھا لکھا نوجوان انتہائی احساس ہوتاہے جب وہ اپنے اطراف میں ناانصافی اور لاقانونیت کا مشاہدہ کرتاہے تو اس کے ذہن میں صرف ایک ہی سوال پیداہوتاہے کہ کسی طرح اس ملک کو چھوڑ کر کہیں اور چلاجائے جہاں عزت بھی اور روزگار بھی ہو۔ ان دلبرداشتہ نوجوانوں کے والدین انہیں سمجھاتے ہیں کہ کچھ عرصے کے بعد حالات بہتر ہو جائیں گے ملک چھوڑ کر نہ جائو لیکن ان نوجوانوں کو اپنے والدین کی باتوں پر یقین نہیں ہے انہیں اس بات کاادراک ہے کہ موجودہ سیاسی نظام میں نہ تو معاشی ترقی کے کوئی واضح امکانات موجود ہیں اور نہ ہی ان کا اس Meritless معاشرے میں کوئی مقام ہے ،چاپلوسی،خوشامداور سازشوں میں پھنسے ہوئے اس معاشرے میں علم وحکمت کی گنجائش نہیں ہے۔ اس ہی لئے نوجوان لڑکے ترک وطن کرنے پرمجبورہورہاہے۔ لکھی جائیں گی کتاب دل کی تفسیریں بہت ہوں گی اے خواب جوانی! تیری تعبیریں بہت (علامہ اقبالؒ)