بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کے 10 سال: ایک چائینیز ابتدا سے بین الاقوامی افق تک

تحریر :- روسوئیئ ( سئنیر چائینز جرنلسٹ)

گزشتہ دس سالوں میں، تمام فریقین کی مشترکہ کوششوں اور کاوشوں سے، بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ایک چینی اقدام سے ایک بین الاقوامی پروگرام میں تبدیل ہوا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے اس سفر میں بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام ایک وژن سے حقیقت تک، آج دنیا کا سب سے وسیع اور سب سے بڑا بین الاقوامی تعاون کا پلیٹ فارم کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

2019 میں جاری کردہ ورلڈ بینک کے پالیسی پیپر کے مطابق، بی آر آئی بڑی حد تک فائدہ مند ہے۔ سب سے پہلے، اس پروگرام کے باعث عالمی آمدنی میں 0.7 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کا مجموعی حاصل تقریباً نصف ٹریلین ڈالر بنتا ہے۔ بیلٹ اینڈ پروگرام کے باعث، عالمی سطح پر، 7.6 ملین لوگوں کو انتہائی غربت اور 32 ملین ابادی کو درمیانی غربت سے نکالنے میں مدد حاصل رہی ہے اور یہ پروگرام عالمی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں معمولی اضافے کا باعث بنے گا۔

مستقبل کو دیکھتے ہوئے، خطرات کو کنٹرول کرنے اور ان کی روک تھام کے ساتھ ساتھ، BRI منصوبے سائنس اور ٹیکنالوجی اور صنعتی تبدیلی پر، چین کے صنعتی اور سپلائی نیٹ ورک کے فوائد سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے زیادہ توجہ حاصل کریں گے۔ اپنی 41 بڑی صنعتی کیٹیگریز، 207 انٹرمیڈیٹ کیٹیگریز، اور 666 چھوٹی کیٹیگریز کے ساتھ، چین دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس اقوام متحدہ کی صنعتی درجہ بندی میں تمام صنعتی زمرے ہیں۔

مزید برآں، چین کی ٹیکنالوجیز اب نئی توانائی پر مبنی گاڑیوں، تیز رفتار ریل، آف شور انجینئرنگ آلات، ہوا اور فوٹو وولٹک پاور، اور پاور ٹرانسمیشن حصول توانائی کے حوالے سے عالمی معیار کی حامل ہیں۔

اس طرح سے یہ عوامل BRI ممالک کے ساتھ اعلیٰ سطحی صنعتی تعاون حاصل کرنے کے بھر پور مواقع فراہم کر رہے ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران، BRI تعاون نے حصہ لینے والے ممالک کو حقیقی معنوں میں یکساں فوائد فراہم کیے ہیں، اور تمام انسانیت کے لیے جدیدیت کا احساس کرنے کے لیے نئی راہیں کھول دی ہے۔

بی آر آئی بنیادی انفراسٹرکچر ڈھانچے کے رابطے کو ترجیح بنیادوں پر استوار کر رہا ہے۔ زمینی، سمندری، فضائی اور سائبر اسپیس پر بنیادی معاونت اور رابطوں کو کامیاب سے قائم کیا گیا ہے، جو تجارتی اور صنعتی صلاحیت میں باہمی تعاون کے لیے ٹھوس بنیادیں فراہم کر رہے ہیں، اور ثقافتی اور عوامی سطح پر لوگوں کے درمیان تبادلے کو مضبوط انداز میں استوار کر رہے ہیں۔

بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کے حوالے سے خاص بات اقتصادی راہداری اور بین الاقوامی راستوں کی تعمیر ہے جس میں خاطر خواہ پیش رفت ہو رہی ہے۔
چین نے تقریباً 90 پارٹنر ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ 100 سے زائد زرعی اور ماہی گیری تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں، 70 سے زائد ممالک اور خطوں میں 2,000 سے زائد زرعی ماہرین اور تکنیکی ماہرین بھیجے گئے ہیں، اور 1500 سے زائد زرعی ٹیکنالوجیز متعارف کروائی ہیں جیسے کہ ہائبرڈ چاولوں کی کئی اقسام کو۔ اس فورم میں شریک ممالک میں کاشت شروع کی گئی ہے۔

بیلٹ اینڈ روڈ تعاون پروگرام تعاون کے عمل میں، چین نے شرکت کرنے والے ممالک کے ساتھ صنعتی پارکس کی تعمیر میں معاونت فراہم کی ہے اور چینی کاروباری اداروں کو اعلیٰ سطحی صنعتی تعاون کے ذریعے مقامی باشندوں کے لیے ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے رہنمائی فراہم جا رہی ہے۔
چینی کاروباری اداروں نے اس پروگرام میں شامل ممالک میں غربت کے خاتمے، صحت کی دیکھ بھال اور بحالی کے 300 سے زیادہ منصوبے شروع کیے ہیں، جو لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے والے منصوبوں میں قابل ذکر نتائج یقینی بنا رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے چین میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ٹوکیو میں بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کی 10ویں سالگرہ کے موقع پر بین الاقوامی سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا، جاپان میں پاکستانی سفیر نے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو اپنے طور پر کھڑا ہے۔ ، اور یہ عالمی سطح پر باہمی تعاون کے فروغ کے لیے اہم ترین ضرورت پوری کر رہا ہے،
اور عالمی سطح پر باہمی تعاون کو یقینی بنانے کے حوالے سے ایک ٹھوس بنیاد یقینی بنا رہا ہے کیونکہ دنیا
باہمی روابط کو جوڑے رکھنے میں سنجیدہ ہے اور چاہتی ہے کہ اس اتحاد کو قائم و دائم رکھا جا سکے۔

اس حوالے سے چین نے حقیقی معنوں میں اس دائرہ کار کو بڑھایا ہے، اور ناصرف عالمی تجارت میں اضافہ کیا ہے، بلکہ عوام کے درمیان روابط، ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے، اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دیا ہے۔ یہاں تک کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ٹوکیو میں ہو رہا ہے اور یہ چین کی عمومی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔

بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کے تحت ایک اہم پائلٹ پراجیکٹ، چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) نے پاکستان کے انفراسٹرکچر کنیکٹوٹی اور صنعت کاری کے لیے ایک مضبوط بنیاد رکھی ہے، اور ملک کی اقتصادی اور سماجی پائیدار ترقی کو مؤثر طریقے سے فروغ دیا ہے۔

چین نے سی پیک کے تحت پاکستان میں 25.4 بلین ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی ہے اور ملک میں تقریباً 236,000 ملازمتیں پیدا کی ہیں۔ پاکستان میں چینی سفارت خانے کے مطابق، اس نے پاکستان کو 8,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے اور 886 کلومیٹر قومی کور ٹرانسمیشن گرڈ بنانے میں مدد کی ہے۔

پاکستان میں جب ہم مقامی صحافیوں، ماہرین اقتصادیات اور دیگر تجزیہ کاروں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ واضح طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ’’چین نے نہ صرف انرجی اور انفرا سٹرکچر پراجیکٹس کے لیے فنڈز فراہم کیئے ہیں بلکہ صنعتی زونز بنانے میں بھی مدد یقینی بنا رہا ہے تاکہ پاکستان معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے‘‘۔

میں کہہ سکتا ہوں کہ چین بیلٹ اینڈ روڈ کی مشترکہ ترقی میں تعاون کو فروغ دیتا رہے گا تاکہ وسیع دائرہ کار، وسیع میدان اور گہری سطح کے ساتھ اعلیٰ معیار کی ترقی کے اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔

(Ru Cui سینئر صحافی اس وقت پاکستان میں چائنا میڈیا گروپ (CMG) کے
کے ساتھ بطور بیورو چیف کام کر رہی ہیں)۔