ٹرین کا الم ناک حادثہ، بچی پر تشدد! ملزمہ گرفتار!

٭ …نواب شاہ کے قریب سرہاڑی ریلوے سٹیشن پر ہزارہ ایکسپریس ٹرین کی 10 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں، 37 مسافر جاں بحق متعدد زخمی ریلوے پٹڑی صرف ایک انچ لوہے اور لکڑی کے ٹکڑے سے جڑی ہوئی تھیO رضوانہ تشدد کی ملزمہ ’سومیہ‘ کی ضمانت مسترد، گرفتار، ’’بچی ہمارے ہاں کام نہیں کرتی تھی سومیہ کا بیان O اہم خبر، پشاور کی تحصیل متھرا کے بلدیاتی ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار انعام اللہ مہمند نے جے یو آئی کے امیدوار رفیع اللہ کو سات ہزار ووٹوں سے ہرا دیا!O نئی مردم شماری پر انتخابات، فروری یا مارچ 2024ء میں ہو سکیں گے، حکومتی ذرائع O عمران خان، اٹک جیل میں بی کلاس، زمین پر گدا، ناشتہ میں ڈبل روٹی، مکھن، انڈا، چائے، دوپہر کو پھل کھائےO ملتان سے لاہور، ٹرینوں کے کرایوں میں 250 روپے تک اضافہO عمران خان کے خلاف65 ارب روپے کی کرپشن کے فیصلے آ رہے ہیں، جاوید لطیف!O سینٹ، سیکرٹ ایکٹ منظور ایف آئی اے کا بلاوارنٹ گرفتاری کا اختیار ختم O 17 سال بعد سِبی ہرنائی، ریلوے ٹرین بحالO عمران خان کو سزا سنانے والا ایڈیشنل سیشن جج فیصلہ سنا کر لندن چلا گیاO عمران خان کو سزا مکافاتِ عمل ہے، بلاول کے بعد غفور حیدری اور ریحام خان کے بیانات O پنجاب، 7 ماہ میں 103 اشتہاری مجرم دوسرے ملکوں سے گرفتار کر کے لائے گئے ہیں، آئی جی پولیس پنجابO پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت، سکیورٹی ضروری ہے: وزارت خارجہO کل اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی!O کوئی سنسنی خیز اقدام ہو سکتا ہے۔
٭ …ریلوے کے سکھر ڈویژن میں ایک اور بڑا ریلوے حادثہ، سعدرفیق کی وزارت ریلوے کے دور میں یہ دوسرا بڑا حادثہ ہے جس میں 37 افراد جاں بحق متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے دوسرے حادثے بھی ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کی ذمہ داریوں کی تفصیل بھی قابل ذکر ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق 90 رکنی، کابینہ میں اب تک بعض وزیر اور مشیر ایسے ہیں جن کے پاس کوئی وزارت یا محکمہ نہیں، وزیراعظم کو بعض نام بھی یاد نہیں ہوتے (کل ویسے ہی کابینہ ختم ہو رہی ہے)، مگر دوسری طرف خواجہ سعد رفیق کو بیک وقت ریلوے اور ہوابازی، ہوائی اڈے، ایئرلائنز کی دو اہم وزارتیں دے دی گئیں۔ دونوں وزارتیں بے حد اہم مگر بے پناہ خسارے کی شکار تھیں، انہیں مالیاتی ماہرین کی بجائے عام سیاست دان کے حوالے کرنے کے یہی منطقی انجام سامنے آ سکتے تھے۔ ہندوستان میں ریلوے لائنیں 1866ء میں بچھانے کا کام شروع ہوا تھا اور تقریباً 20 برسوں میں پورے ہندوستان میں ریلوے پٹڑیاں بچھ چکی تھیں۔ پاکستان میں تقریباً پونے دو سو سال پرانی پٹڑیاں اسی طرح چل رہی ہیں۔ پاکستان میں نئی پٹڑیاں بچانے کی بجائے پہلے سے موجود بہت سی لائنیں اور ریلوے سٹیشن بند کئے جا چکے ہیں انن میں نارووال چک امرو سیکشن، چشتیاں سمہ سٹہ سیکشن، حیدرآباد انڈیا سرحد ریلوے لائن شامل ہیں۔ ریلوے کے زیر استعمال بیشتر سٹیشنوں کی حالت بھی بہت خستہ ہو چکی ہے۔ بند ہونے والی لائنوں کے بند ریلوے سٹیشنوں کی عمارتیں بھی اُجڑ چکی ہیں۔ ریلوے ایسا بدنصیب محکمہ ہے کہ ترقی کرنے کی بجائے مسلسل زوال کا شکار ہے (یہی حال ہوا بازی کا ہے)۔ اس محکمے کو چلانے کے لئے بعض اوقات فضول تجربات کئے گئے۔ شیخ رشید کو وزیرریلوے بنایا گیا متعدد ریلوے سیکشن بند کر دیئے گئے اور باقی ماندہ ناکارہ ریلوے لائنوں پر اک دم 40 نئی ٹرینیں چلا دی گئیں۔ پٹڑیاں اتنا بوجھ نہ سنبھال سکیں اور روزانہ حادثوں کی بھرمار ہونے لگی، 60,50 خوفناک حادثوں کے بعد شیخ رشید کو ریلوے کی بجائے داخلہ کا محکمہ دے دیا گیا!! ہزارہ ایکسپریس کی مزید تفصیل ٹیلی ویژنوں اور اخبارات میں آ رہی ہے۔ ٭ …اب ذِکر تازہ ترین سیاسی صورت حال کا! حکومتی طوطوں، لائوڈ سپیکروں اور فصیلوں پر کھڑے چوبداروں نے مسلسل راگ چھیڑ رکھا تھا کہ انتخابات ہر حالت میں اکتوبر یا نومبر میں پرانی مردم شماری پر ہوں گے۔ اس کالم میں بار بار واضح کیا گیا کہ حکومت غلط بیانی کر رہی ہے۔ مختصر یہ کہ اب نئی مردم شماری کا راگ شروع ہو گیا ہے اور نئی مردم شماری کے ڈیڑھ سال سے روکے جانے والے انتظامات کے نتائج جاری کر دیئے گئے ہیں۔ ساتھ ہی وضاحت آ گئی ہے کہ نئی حلقہ بندیاں چار ماہ میں تشکیل پائیں گی۔ پھر اپیلیں سنی جائیں گی۔ ان کے فیصلوں اور کروڑوں ووٹ چھاپنے اور 60,50 ہزار عملہ بھرتی کرنے میں مجموعی طور پر تقریباً 9 ماہ لگ جائیں گے، اس طرح انتخابات 2024ء میں فروری یا مارچ میں ممکن ہو سکتے ہیں، پھر یہ کہ مارچ میں رمضان المبارک آ جائے گا، جو اپریل کے وسط تک چلے گا، مئی، جون، جولائی بارشوں کے مہینے ہیں۔ اس لئے انتخابات اول تو فروری میں وگرنہ ایک سال بعد ستمبر اکتوبر پر جا پڑیں گے!! کوئی نہ کوئی جواز پیدا کر لیا جائے گا۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا ابھی تک اعلان نہیں ہوا اور کل 9 اگست کو اسمبلیاں اور حکومتیں ختم کرنے اور نگران وزیراعظم و وزرائے اعلیٰ مقرر کرنے کے اعلانات کئے جانے کا امکان موجود ہے مگر آئین کے مطابق نگران وزیراعظم یا وزیراعلیٰ صرف 60 یا90 دنوں کے لئے کام کر سکتا ہے۔ اب آئین کے منافی نگران حکمرانی 9 ماہ بلکہ اس سے بھی آگے جا سکتی ہے۔ یہ مسئلہ یوں حل ہو سکتا ہے کہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اگلے سال تک کام کرنے کا کوئی راستہ تلاش کر لیا جائے۔ موجودہ حکمرانوں سے کوئی بھی توقع کی جا سکتی ہے! مگر آئی ایم ایف نے صرف 9 ماہ کے لئے قرضہ دیا ہے اس پر نگران حکومتیں عمل درآمد نہیں کر سکتیں، (اسحاق ڈار بہت ضروری ہے) زیادہ بات کیا کرنی، 9 اگست، رات 12 بجے تک کسی نہ کسی ہنگامی صورت حال کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا! ٭ …کالم لکھتے وقت خبر آ گئی ہے کہ کم سن بچی رضوانہ پر تشدد کی ملزم، سول جج عاصم حفیظ کی بیوی سومیہ کی نئے جج فرخ فرید نے عبوری ضمانت مسترد کر دی اور ملزمہ کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ جج فرخ فرید نے کہا کہ ایک ساتھی جج کی بیوی کی گرفتاری کا حکم بوجھ بن رہا ہے، اسے عدالت کے باہر سے گرفتار کیا جائے۔ پولیس اسے باہر سے گرفتار کر کے لے گئی۔ سومیہ نے گزشتہ روز بے تکا بیان دیا کہ رضوانہ تو اس کے گھر میں کام ہی نہیں کرتی تھی! حیرت کہ اس کا میاں سول جج عاصم حفیظ 6 ماہ سے بچی پر تشدد دیکھتا رہا تھا، اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی؟ ٭ …ایک بزرگ قاری نے سوال کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے فیصلہ دیا کہ اسلام آباد کے چیف جسٹس عمران خان کیس میں سیشن کورٹ کے جج کے فیصلہ کی دوبارہ سماعت کی ہدائت جاری کریں گے۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بلاتاخیر سیشن عدالت کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے دیا جس میں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دیا گیا تھا۔ ایڈیشنل سیشن جج نے اس ہدائت کی پیروی کی بجائے عمران خان کو قید اور جرمانہ کی سزائیں سنا دیں! محترم بزرگ قاری نے عجیب سا سوال کیا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹسوں اور ایڈیشنل سیشن جج میں سے زیادہ طاقت ور کون ہے؟ میں اس سوال کا جواب قارئین پر چھوڑتا ہوں! ٭ …بلاول زرداری (بھٹو نہیں) کے بعد ریحام خان اور جے یو آئی کے سیکرٹری جنرل عبدالغفورحیدری نے عمران خان کی سزا کو مکافاتِ عمل قرار دیا ہے۔ یہ خالص علمی و ادبی اِصطلاح ہے۔ قارئین کرام! دیکھئے قتیل شفائی نے یہ اصطلاح کتنی خوبصورتی سے استعمال کی ہے۔ کہتے ہیں: حُسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں اُن کی صُورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں اُف، وہ مَر مَر سے تراشا ہوا شفاف بدن! دیکھنے والے اُسے تاج محل کہتے ہیں! پڑ گئی پائوں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا! ہم تو اس کو بھی تیری زلف کا بَل کہتے ہیں میں نے توڑی تھی صراحی تو اُمڈ آئے بادل! دوستو! اِس کو مکافاتِ عمل کہتے ہیں! بعض مضامین میں آخری شعر کو یوں درج کیا گیا ہے کہ: اس نے زُلفوں کو جو جھٹکا تو اُمڈ آئے بادل!! دوستو! اِس کو مکافاتِ عمل کہتے ہیں!!