عدل و انصاف کی تذلیل، دو روز میں54 قوانین!

٭ …باجوڑ دھماکہ: جاں بحق افراد کی تعداد 63 ہو گئی، دو دنوں میں 54 قوانین منظور! تمام قوانین غیر موثر ثابت ہونے کا واضح امکانO چین، بیجنگ: کئی روز مسلسل طوفانی بارشیں، 140 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا، 22 شہری ہلاک،27 لاپتہO نئی مردم شماری یا پرانی مردم شماری کا تنازع، حکومتی پارٹیوں میں شدید اختلافات، انتخابات ملتوی ہونے کا واضح امکان، نئی حلقہ بندیوں کے لئے آئین میں ترمیم ممکن نہیںO تحریک انصاف کو پارٹی میں الیکشن نہ کرانے پر الیکشن کمیشن کا نوٹس، انتخابی نشان ’بَلا‘ استعمال نہیں ہو سکے گاO سیکرٹ ایکٹ، سینٹ میں شدید ہنگامہ، خود حکومتی پارٹیوں کی سخت مخالفت، بل قائمہ کمیٹی کے سپرد!O وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اربوں کے نئے طویل ترقیاتی منصوبے، موجودہ حکومتیں برقرار رکھنے کی سازشیںO اسلام آباد: ایرانی تیل کے دو ٹینکر پکڑے گئے، ڈرائیور کروڑوں کا تیل چھوڑ کر بھاگ گئےO باجوڑ اور ژوب میں دھماکے کرنے والے افغان باشندے نکلےO بہاول پور یونیورسٹی (اسلامیہ؟؟) کا سابق وائس چانسلر ’ڈاکٹر اطہر محبوب‘ ملک سے فرار ہوتا پکڑا گیا، طیارہ سے اتار لیا گیاO لاہور، اورنج ٹرین، 10 کروڑ افراد سفر کر چکے ہیںO سعودی عرب، چین، ترکی کے بعد ایرانی وزیرخارجہ اسلام آباد میںOرضوانہ کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک اور ملازمہ بچی پر ظالمانہ تشدد، ملزم گرفتارO عمران خان فرد جرم کے لئے 22 اگست کو الیکشن کمیشن کی طلبیO ملک میں مشترکہ مفادات کی کونسل کا کوئی وجود نہیں، نئی مردم شماری منظور نہیں ہو سکتیO سندھ 6431 سرکاری گاڑیوں کی تیل کی کٹوتی بحال کر دی گئیO’’ عمران کے ہسپتال میں علاج کرانا گناہ کبیرہ ہے‘‘ اکرم درانیO سٹاک ایکس چینج، 48 ہزار کی حد عبور!O بھارت: یو پی، جھاڑ کنڈ، ممبئی، مغربی بنگال، اوڑیسہ میں طوفانی بارشیں!!
٭ …سیاسی صورت حال بہت پیچیدہ اور گنجلک ہوتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے نئی مردم شماری پر انتخابات کا بیان دے کر خود حکومتی حلقوں میں افراتفری پیدا کر دی ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے نئی مردم شماری کو قبول کرنے سے انکارا کر دیا ہے، جماعت اسلامی و ایم کیو ایم پرانی اور نئی دونوں مردم شماریوں کو تسلیم نہیں کر رہے۔ دوسری طرف قانونی اور تکنیکی رکاوٹیں، پیپلزپارٹی پرانی (2012ء والی) مردم شماری کو ہی قبول کرنے پر رضا مند ہے۔ اسے موجودہ دور میں 11 سال پرانی مردم شماری کے باعث سندھ میں اقتدار اور وفاق میں حکومت میں شراکت ملی ہوئی ہے، وہ اسے ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ نئی مردم شماری میں ایم کیو ایم کے اکثریت حاصل کرنے کا خدشہ ہے۔ ن لیگ اس معاملہ میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اس میں شامل قبائلی سرداروں اور عام نوابوں اور جاگیرداروں کو نئی نئی پارٹیوں کے وجود میں آنے سے اپنے مفادات کو نقصان دکھائی دے رہا ہے۔ ٭ …مگر سیاسی پارٹیوں کے بیانات سے الگ چند بہت اہم اور ناگزیر معاملات ایسے ہیں کہ نئی مردم شماری کا قانونی اور تکنیکی طور پر نفاذ بالکل ناممکن ہے۔ اس کی اہم تشریحات یوں ہیں۔ 1 …مردم شماری یکم مارچ سے31 مارچ تک مکمل ہو گئی تھی۔ اس کے نتائج 30 اپریل تک مکمل کر لئے گئے۔ یہ نتائج سامنے آ جاتے تو انتخابات کے لئے تقریباً سات آٹھ ماہ مل جاتے، اس مدت میں نئی حلقہ بندیاں بن سکتی تھیں۔ مگر یہاں ایک سخت رکاوٹ سامنے آ گئی کہ نئی حلقہ بندیاں نافذ کرنے کے لئے آئین میں ترمیم ضروری ہے۔ اس کے لئے قومی اسمبلی کی دوتہائی اکثریت کی منظوری ضروری ہے۔ جو اس وقت میسر نہیں۔ تحریک انصاف کے جانے کے بعد اسمبلی نصف خالی پڑی ہوئی ہے۔ دو تہائی اکثریت اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس منظوری کے بغیر آئین میں کوئی ترمیم نہیں ہو سکتی۔ 2 …آئین میں ترمیم سے پہلے نئی مردم شماری کی ’مشترکہ مفادات کی کونسل‘ سے منظوری ضروری ہے۔ مشترکہ مفادات کی کونسل میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی شرکت ضروری ہے۔ اس وقت پنجاب اور پختونخوا میں کوئی منتخب وزیراعلیٰ موجود نہیں۔ نگران وزیراعلیٰ کونسل کا رکن شمار نہیں ہو سکتا۔ یوں کونسل کا وجود ہی متنازع ہو چکا ہے، یہ آئندہ انتخابات کے بعد نئی صوبائی حکومتوں کے چار وزرائے اعلیٰ اور وفاقی حکومت کے چار نمائندوں پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ موجودہ حالات میں منظوری ممکن نہیں۔ 3 …حکومت نے جس بدنیتی کے ساتھ نئی مردم شماری کو مختلف حیلے بہانوں سے ایک سال تک ٹالا، اس کے باعث عام انتخابات تک فقط تین یا چار ماہ کا وقت رہ گیا ہے جب کہ خود وفاقی اور صوبائی حکومتیں صرف پانچ چھ روز کے بعد رخصت ہونے والی ہیں، مگر اس کا امکان کم ہے، موجودہ حکومت اپنی چالاکیوں اور بدنیتی سے اس طرح کے اقدامات کر رہی ہے کہ پرانی نہ ہی نئی مردم شماری زیرعمل آ سکے۔ اس نئی مردم شماری پر وفاقی حکومت نے 36 ارب روپے خرچ بلکہ ضائع کئے اور صورت حال یہاں تک لے جائی گئی ہے کہ اس سال عام انتخابات دکھائی نہیں دے رہے۔ آئین میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے دوران اسمبلی کے انتخابات کو ایک سال تک آگے لے جایا جا سکتا ہے مگر ملک میں اس وقت کوئی جنگی یا ہنگامی صورت حال یا اس قسم کی بدامنی دکھائی نہیں دے رہی جس کی بنا پر اسمبلی اور موجودہ حکومت کو ایک سال آگے لے جایا جا سکے! ضیاء الحق نے پہلے دن 90 دنوں میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا۔ نام نہاد انتخابی تیاریاں شروع کی گئیں۔ چند روز بعد مخالف سیاسی گروہوں میں ملک گیر فسادات شروع ہو گئے(یہ سب جعلی تھے۔ ایک سیاست دان نے اُس وقت کہا تھا کہ یہ ہنگامے ایک جیسی ’حجامتوں‘ والے گروپوں نے کرائے ہیں۔ بہرحال ضیاء الحق اپنی بددیانتی کے باعث90 دنوں کی بجائے گیارہ سال قوم پر مسلط رہا (پھر انجام؟؟) ٭ …یہاں سیاسی لوگوں کی ایک جھلکی! ایوب خان کی طرح ضیاء الحق کے مارشل لا کو بھی بہت سے تالیاں بجانے والے قوال اور رکوع کے بل جھکے رہنے والے سیاسی رہنمائوں کے ٹولے میسر آ گئے۔ اِن پر کیا ماتم کیا جائے؟ صرف ایک مذہبی جماعت کا واقعہ جو ضیاء الحق کو امیرالمومنین کا درجہ دیتی تھی، اس جماعت کی قیادت کی طرف سے ملک بھر میں، خاص طور پر صحافیوں کو ہزاروں عید کارڈ بھیجے گئے ان میں قرآن مجید کی ایک آئت نمایاں درج تھی کہ ’’جاء الحق وزَھَقَ البَاطلْ‘‘ انتہائی چاپلوسی کہ ’’جاء الحق‘‘ کا لفظ اس طرح لکھا گیا کہ واضح طور پر ’’ضیاء الحق‘ پڑھا جاتا تھا۔ میرے پاس یہ کارڈ ایک عرصے تک محفوظ رہا پھر کہیں گم ہو گیا۔اس مذہبی جماعت کے ریکارڈ میں اب بھی محفوظ ہو گا۔ ٭ …عجیب قیامت ہے کہ ایک عرصے سے ایک جیسے چیختے چلاتے کالم لکھنے پڑ رہے ہیں۔اس وقت تک تقریباً 13 ہزار کالم لکھ چکا ہوں۔ میں نے ادبی کالموں سے لکھنا شروع کیا۔ پہلے دو تین ہزار کالم بہت دلچسپ ہوا کرتے تھے۔ ادیبوں شاعروں کی محفلوں کا دلچسپ حال، ان کی شگفتہ باتیں، صرف ایک واقعہ کہ ایک روز میں ٹی ہائوس میں گیا، چھت کا ایک پنکھا بند تھا۔ ویٹرالٰہی بخش سے پوچھا کہ کیوں بند ہے؟ اس نے کیا جواب دیا کہ صاحب! کل اس پنکھے کے نیچے…نے نثری نظمیں پڑھی تھیں، اس وقت سے بند ہے! ایک عرصے سے سیاسی مچھندروں، مداریوں اور سیاسی سرکس کے جوکروں نے معاشرے کا وہ حشر کیا ہے کہ بجلی، روٹی، گیس، پٹرول اور آٹا وغیرہ کی کچومر نکال دینے والی سفاک مہنگائی نے ہر شخص کو ماتم کناں بنا دیا ہے۔ کہاں تک بدقماش سیاست دانوں کی معاشرے کو نوچنے کھسوٹنے کی ایک جیسی داستانیں لکھی جائیں؟ معاشرے کی بدنصیبی کہ یونیورسٹیوں کے جلیل القدر عہدہ وائس چانسلر کا بھی ’چہرہ‘ مسخ ہو گیا ہے۔ ٭ …کیا کیا رونے روئے جائیں؟ ایک سول جج (صرف17 گریڈ) کی سفاک بیوی ایک معصوم کمسن بچی پر انتہائی ہولناک تشدد کرتی ہے، اور کئی دن گزرنے کے باوجود پولیس اس سے تفتیش کی جرأت نہیں کر سکی۔ وہ آزاد پھر رہی ہے بچی پر توڑے جانے والے ناقابل بیان مظالم کی داستان ابھی چل رہی ہے کہ اسی طرح کا ایک اور وحشت ناک منظر سامنے آ گیا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کم سن ملازمہ بچی سے گلدان ٹوٹ گیا۔ اس پر ظالم مالکن نے پہلے اس پر شدید تشدد کیا پھر اس کا سر مُونڈ دیا…استغفار!! معاشرے کو کیا ہو گیا ہے؟ بچوں کی ملازمت پر قانونی پابندی عائد ہے پھر یہ سب کچھ ہو رہا ہے؟ کیوں یہ ہو رہا ہے؟ اس بچی پر ظلم توڑنے والے میاں بیوی کو گرفتار کر لیا گیا ہے مگر جج اور اس کی بیوی کی طرح یہ لوگ بھی ضمانت پر رہا ہو جائیں گے! اور کالم نگار پھر عدل و انصاف کا ماتم کرتے رہ جائیں گے!