تیرے جانے کی یہ عمر تو نہ تھی

چند دن پہلے رات بارہ بجے سوشل میڈیا پر ایک خبر وائرل ہوئی کہ اسلام آباد کے سابق ایم پی اے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے صاحبزادے عنزہ طارق چوہدری ایک حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔دل نہیں مان رہا تھا بحرحال موت برحق ہے۔ہر شخص نے ایک دن اُدھر ہی جا نا ہے۔لیکن بے وقت موت اس خاندان کی تاریخ ہی بدل کر رکھ دیتی ہے۔دوسرے دن اس شہزادے کے جنازے میں شرکت کا موقع ملا اور وہاں لوگوں کا جم غفیر تھا۔ اس جنازے میں اتنے لوگوں کی شرکت کی تین وجوہات تھیں۔نمبر ایک ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کی عوامی خدمت، نمبر دو اس خاندان کی شرافت اور نمبر تین اس شہزادے کی جوانی کی موت۔اس جوانی کی موت سے ایک شعر یاد آیا:

کیا نزع کی تکلیفوں میں مزہ جب موت نہ آئے جوانی میں کیا لطف جنازہ اٹھنے کا ہر گام پہ جب ما تم نہ ہو بلاشبہ عنزہ طارق چوہدری کا ہر قدم پر اور ہر سانس کے ساتھ ماتم ہو رہا تھا۔اس کی موت اور پھر جنازے کا ایک عجیب منظر تھا۔ہر طرف سسکیاں ہی سسکیاں تھیں۔میرے اس خاندان سے تین پشتوں سے تعلقات رہے ہیں۔میری اصل دوستی تو ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے والد محترم چوہدری فضل داد صاحب سے تھی۔جو شرافت کا ایک ممبع اور وضع دار شخصیت کے مالک تھے۔ہماری زیادہ تر ملاقاتیں سی ڈی اے کے چیئرمین علی نواز گردیزی کے دفتر یا شام کو گردیزی صاحب کے گھر میں ہوتی تھیں۔ گردیزی صاحب سی ڈی اے سے ریٹائر ہوئے تو ان کے حواریوں نے انہیں الیکشن کے میدان میں اتار دیا۔وہ شریف النفس انسان تھے۔ لوگوں کی باتوں میں آگئے اور ایم این اے کی سیٹ پراسلام آباد سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ان کو الیکشن نہ لڑنے کا مشورہ دینے والے چوہدری فضل داد اور میں ہی تھے۔بہرحال وہ الیکشن کا اعلان کر چکے تھے۔انہیں بہت کم ووٹ ملے۔علی نواز گردیزی صاحب نے ایک جملہ کہا کہ یہ لوگ انتہائی بے وفا ہیں اور مجھے تنہائی میں کہا کہ میرے ساتھ آخر تک وفا کرنے والے صرف چوہدری فضل داد تھے۔ یہ بہت ہی وفادار ہیں (ان کو زندگی میں ضائع نہ کرنا)۔اس وقت ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ابھی طالبعلم تھے اور ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ان کے چہرے پر اس وقت بھی اسی طرح کی مسکراہٹ ہوتی تھی۔لیکن ان کے بیٹے نے ان سے سب کچھ چھین لیا۔میرے محسن مولانا کوثر نیازی کے بیٹے فاروق نیازی کی بھی اسی طرح ایک حادثے میں وفات ہوئی۔مولانا صاحب نے سیاست میں بہت اتار چڑھاؤ دیکھے۔جیلیں کاٹیں۔ماریں کھائیں۔ وزارتیں دیکھیں۔ ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ پر اتنے نشیب و فراز گزرے ہیں، آپ کی زندگی میں سب سے مشکل وقت کون سا تھا تو کہنے لگے کہ جب میں نے اپنے جوان بیٹے فاروق نیازی کے جنازے کو کندھا دیا تو ملک صاحب میرے قدم ڈگمگا گئے تھے۔میری کمر ٹوٹ گئی تھی۔یاد رہے کہ ان کے بیٹے کا بھی اسی طرح اسلام آباد کی ایک خونی سڑک پر ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور وہ اللہ کو پیارا ہو گیا تھا۔وہی حال اس دن میں نے اپنے عزیز بلکہ بھتیجے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے قدموں کو بھی ڈگمگاتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔چھلکتے آنسوؤں کے ساتھ ان کے بھی قدم ڈگمگا رہے تھے۔وقت بہت ظالم چیز ہے۔اکثر بڑے سے بڑے زخموں پر مرہم لگا ہی دیتا ہے۔لیکن جوان اولاد کا زخم کبھی نہیں بھرتا۔ یہ انسان کے ساتھ آخری سانس تک تازہ رہتا ہے۔ہماری دلی دعا ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ڈاکٹر طارق صاحب تو شاید پھر سیاسی جھمیلوں، اپنی سیاسی ذمہ داریوں اور عوامی خدمت میں مصروف ہو جائیں گے۔ان کے دوست ہمیشہ کی طرح انہیں مصروف کر لیں گے یا ان کی ذمہ داریاں ان کا دھیان بٹا دیں گی لیکن عنزہ طارق فضل کی والدہ محترمہ اور بہنوں کا غم وہی جانتی ہیں۔ان کی آنکھوں کے سامنے سے اپنے شہزادے کی تصویر کبھی نہیں اوجھل ہو گی۔یقینا جوان اولاد کا زخم ماؤں کو چُور چُور کر دیتا ہے۔عنزہ طارق فضل کو جب قبر میں اتارا جا رہا تھا تو میں ڈاکٹر طارق فضل کے چہرے کو دیکھ رہا تھا تو ایک شعر یا د آیا: خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ اور ہم نے سونا سپرد خاک کیا عنزہ طارق کا جنازہ اسلام آباد کی تاریخ کا بہت بڑا جنازہ تھا۔اس بچے کا ستارہ بہت بلند تھا۔وہ جب سے پیدا ہوا اس کے خاندان کا ہر دن پہلے سے بہتر رہا۔عنزہ خاندان کی کامیابیاں ہی سمیٹتا چلا گیا۔ اس کی وفات کے دوسرے دن عنزہ کی ایک بہت ہی خوبصورت تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کو دیکھ کر پتھر سے سخت دل لوگوں کے آنسو بھی چھلک اٹھے۔خوبصورت چھوٹی چھوٹی داڑھی، مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ کر جب عام لوگوں کا یہ حال تھا تو اس کے خاندان خصوصاً اس کی ماں کا کیا حشر ہوتا ہوگا۔میں تو اس تصویر کو دیکھ کر بس اتنا ہی لکھ سکتا ہوں: کچھ تبسم زیر لب کچھ شرم دامن گیر ہے اُف کس انداز کی ’’عنزہ‘‘ تیری تصویر ہے آخرمیں یہ لکھنا بھی بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام آباد کی ماڈل ٹریفک پولیس اور موٹروے پولیس کی جتنی تعریفیں کی جاتی ہیں وہ سب غلط ہیں۔یقیناً پہلے کچھ عرصہ انہوں نے ٹھیک کام کیا۔اب تو کرپشن، سُستی، نا اہلی اور نالائقی کی تمام خامیاں ان لوگوں میں موجود ہیں۔ جس روڈ پر عنزہ طارق چوہدری کا ایکسیڈنٹ ہوا اس پر رات دس بجے کے بعد نابالغ بچے ایک بائیک پر تین تین بیٹھ کر بغیر ہیلمٹ کے ریسز لگا رہے ہوتے ہیں اور اسلام آباد کی ٹریفک پولیس خواب غفلت میں سوئی پڑی ہوتی ہے۔آپ کو اس پوری سڑک پر ٹریفک پولیس کی کوئی چیکنگ نظر نہیں آتی آپ کو کہیں خیابانِ اقبال پر کوئی ٹریفک پولیس کا بندہ نظر آئے گاتو وہ بھی کہیں سڑک کے کسی کونے پر درخت کے اندھیرے میں کھڑا ہو کر موبائیل پر میسیجز کرتا یا گیم کھیلتا نظر آئے گا۔ سینئر افسران کو ان لوگوں کو چیک کرتے رہنا چاہئے۔اس دن بھی اگر سڑک پر کوئی ایک بھی سپاہی موجود ہوتا تو موٹر سائیکل والے کو بچاتے ہوئے اتنا بڑا سانحہ نہ ہوتا۔انا للہ وانا الیہ راجعون