نیامفاہمتی آرڈی نینس

(گزشتہ سے پیوستہ) ان کے گھوڑوں کی خوراک وہ من سلویٰ ہوتاہے جس کاتصوردورحاضرکاعام شہری تو کجا، گئے وقتوں کے جلال الدین اکبرنےبھی نہ کیا ہوگا،انہیں بھنڈی کھانے کی خواہش ہوئی تو پی آئی اے کاخصوصی طیارہ تین پائو بھنڈی بیرون ملک پہنچانے کوفضا میں بلند ہو گیا ۔ان کی گاڑی بلٹ پروف اوردل شرم پروف ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اقتدارکے حصول کیلئے ایسا دل ہی موجود نہیں کہ جس میں کوئی مروت یاایسااحساس موجود ہو جو وعدوں کی خلاف ورزیوں پر ضمیر پرکوئی چوٹ لگائے۔عمران خان کوناجائز طریقے سے قوم کے سروں پر مسلط کرنے کیلئے درپردہ خدمات کےعوض سندھ کی حکومت عطاکی گئی اوراس خدمت کاحق اس طرح ادا کیاگیا کہ جے یوآئی،اے این پی اورمسلم لیگ (ن) جو اسمبلی میں بیٹھنےکے حق میں نہیں تھے،زرداری نے نہ صرف انہیں اسمبلی میں لاکر اپنے گناہ کاکفارہ ادا کیابلکہ عمران کومسلط کرنے والوں کی بالواسطہ خدمت کرکے ایک ناقابل تلافی جرم کا ارتکاب کیالیکن عمران کاپرزوراصرارکہ کرپشن کے خلاف ان کے بیانیے کواس وقت پذیرائی نہیں مل سکتی جب تک زرداری اورمیاں برادران کو ہمیشہ کیلئے سیاست سے بے دخل نہ کیا جائے اوریہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ان کوقانونی طور پر نااہل کرنے کیلئے نیب کاسہارالیاجائے۔
عمران جس تیزی کے ساتھ اپنے اس پروگرام پرعملدرآمدکیلئے سرگرم تھایقیناًاس نےاپنے مددگاروں کوساتھ ملاکراگلے پندرہ سال اقتدار میں رہنے کاپلان تیارکرلیاتھالیکن وہ یہ بھول گئے کہ اسے اقتدارمیں لانے والے کو بائی پاس کرنا اس سارے پروگرام کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دینےکی صلاحیت رکھتاہے۔اب ایک مرتبہ پھر زرداری کی ضرورت پڑگئی اورانہوں نے اس مرتبہ ایک تیرسے کئی شکارکرنے کا منصوبہ تیارکرتے ہوئے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو پی ڈی ایم کی چھتری تلے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پی ڈی ایم کابنیادی محرک زرداری تھے لیکن پی ڈی ایم کی سربراہی کیلئے ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے پراعتماد کرنے سے خوفزدہ تھےجس کیلئے مولانافضل الرحمان نے ایساکمال دکھایا کہ اس کی قیادت مولانا فضل الرحمان کی جھولی میں جاگری۔ ملک کی دوبڑی پارٹیوں نےمنصوبےکے تحت اگلے انتخابات میں بندربانٹ کیلئےجب دبئی میں مولاناکوبائی پاس کرکے ملاقات کی تومولانا کے اوسان خطاہوگئے اورانہیں اپنے مستقبل کامحل ہوامیں اڑتادکھائی دینے لگا ۔اپنے خواب کوبچانے کیلئے یہ کہہ کرمیدان میں کودگئے کہ ہم اپنی محنت کواس طرح ضائع نہیں ہونے دیں گے اور ہماری مشاورت کے بغیراقتدارکاحصول ایک خواب ہی رہے گاجبکہ مولانابھول گئےکہ یہ تومکافات عمل ہے ۔ مولانا نےپیپلزپارٹی اورن لیگ کے ساتھ پی ڈی ایم کے ساتھ حکومت سازی کرتے ہوئے اپنے سینئرنائب صدرآفتاب شیرپاؤ،شاہ اویس احمد نورانی اوردیگرممبران سے پوچھا تک نہیں اوردونوں بڑی جماعتوں سے اپنے لئے مرکز میں بھی استحقاق سے زیادہ حصہ وصول کیا اور پختونخواکی گورنرشپ بھی لے اڑے۔پختونخواکی نگران حکومت بھی عملاًاپنے پارٹی کے لوگوں پرتشکیل کروالی جہاں اب اہم فیصلے گورنرحاجی غلام علی،سابق وزیراعلی اکرم خان درانی اورمولانا کے بھائی کی منظوری سےہوتے ہیں۔ مولانانے بڑی مہارت سے نگران وزیراعلیٰ کیلئے ضعیف اورحدسے زیادہ شریف اعظم خان کا انتخاب کیاتاکہ ان کے نام پرتمام اختیارات کواپنی مرضی کے ،مطابق استعمال کیاجاسکے اوراے این پی، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں (سوائے پی ٹی آئی کے)کو نمائندگی دینااپنی بدنامی میں انکو بھی حصہ داربنانا مقصود رہا۔مولاناکی سیاسی سازشوں کے نتیجے میں عملاًجے یوآئی کی حکومت جہاں صوبے کی بدترین حکومت ثابت ہورہی ہے وہاں کرپشن کے ماضی کے بھی تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ دوسری طرف گزشتہ کئی روزسے سیکورٹی فورسزاوردہشت گردوں کے درمیان’’کرم ایجنسی‘‘ میں بھرپورجنگ جاری ہے اورپہلی مرتبہ سپہ سالارکوافغان حکومت سےبھرپور احتجاج کرناپڑا ہے۔ ایران کوبھی موجودہ افغان حکومت سے دہشت گردوں کی کھلی پشت پناہی پر سخت شکائت ہے۔یہی وجہ ہے پاکستانی سپہ سالار کا مشترکہ پالیسی بنانے کیلئے ایران کادوروزہ دورہ کرنا ضروری ہوگیا۔ دوسری طرف صوبائی حکومت اپنے کردار میں مکمل ناکام ہوچکی ہے جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ،ن لیگ اورپیپلزپارٹی پختونخواکے موجودہ سیٹ اپ سے شدیدنالاں اورتنگ ہے۔ ادھراے این پی کے ایمل ولی خان نے گورنرغلام علی کی حمایت کی غلطی تسلیم کرتے ہوئے انہیں ہٹانے کامطالبہ کردیاہے۔ مولاناموجودہ سیاسی انتشارکودباؤمیں تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں جس کیلئے انہوں نے پی ڈی ایم کومردہ قراردیتے ہوئےکھل کراپنےاختلافات کااظہارکردیا۔میاں نوازشریف اپنی آمداوراگلے وزارت عظمیٰ کویقینی بنانے کیلئےفی الحال پی ڈی ایم کے اتحاد کو برقرار رکھنا ضروری سمجھتےہیں۔یہی وجہ ہےکہ انہوں نے وزیراعظم کو مولانا کومنانے کا فریضہ سونپاہے جبکہ مولانا نے کھل کر مستقبل کے سیٹ اپ کیلئے خود کو صدر اورخیبرپختونخوا کے ساتھ بلوچستان کی حکومتوں کامطالبہ کردیاہےجوکہ نگران حکومت کی بدترین کارکردگی اورکرپشن کی وجہ سے ممکن نہیں لیکن کیاان حالات میں زرداری جنہوں نےاپنےبیٹےبلاول کومستقبل کاوزیراعظم بنانے کیلئے وزیرخارجہ کامنصب حاصل کیااوراپنے بیٹے کیلئے درجن سے زائد امریکی دوروں میں آئندہ کے وزیراعظم کامنصب سنبھالنے کیلئے درپردہ کوششیں اور انتھک محنت میں مصروف ہیں، وہ ن لیگ کا اگلا وزیراعظم کوقبول کرلیں گے؟ کیا ان حالات میں مولانا نےخودکو اگلاصدرکاعہدہ مانگ کردوبارہ دو بڑی جماعتوں کواسی پوزیشن میں لاکھڑاکیاہے جہاں ان جماعتوں نے ان کوپی ڈی ایم کی سربراہی کیلئے منتخب کیا تھا؟ وزیراعظم نے14اگست کو اپنے تمام اختیارات نگراں حکومت کے حوالے کرنے کا اعلان کردیا ہے اورقوم کو مبارک ہوکہ موجودہ حکومت نے بالآخرپرانی مردم شماری کے مطابق آئندہ انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیاہے اوراس طرح نئی مردم شماری پرقوم کے 36ارب کی خطیرنقصان کاکون ذمہ دارہے؟