فلم اور سینما کے لئے نئی اصلاحات

پاکستان میں ریفریشمنٹ کے تمام پروگرام بند کر دئیے گئے۔جس وجہ سے پاکستان کے نوجوانوں نے کھیلوں سمیت تمام سرگرمیوں میں دلچسپی لینا
پاکستان میں ریفریشمنٹ کے تمام پروگرام بند کر دئیے گئے۔جس وجہ سے پاکستان کے نوجوانوں نے کھیلوں سمیت تمام سرگرمیوں میں دلچسپی لینا چھوڑ دی۔ فارغ رہنے اور بے روزگاری کی وجہ سے ان کا رجحان دہشت گردی اور سٹریٹ کرائمز کی طرف بڑھتا چلا گیا اور مسلسل بڑھتا جا رہا ہے یا پھر سارا سارا دن موبائل میں سر دیئے رکھتے ہیں۔مجھے1970ء کا فلموں کا دور بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے شہر چکوال میں صرف ایک سینما ہوا کرتا تھا اور اس پر ہر جمعے کو نئی فلم آتی تھی۔اس دن ٹکٹ ملنا مشکل ہوتے تھے۔بہت سی سفارشیں کرانی پڑتی تھیں۔اس دن تین شو چلا اور ہر اتوار کو تین شو ہوا کرتے تھے۔اس کے علاوہ سکولوں کے آپس میں سالانہ ٹورنامنٹ بھی 7 دن ہوا کرتے تھے خاص طور پر جس دن کبڈی کا فائنل میچ ہوتا تھا تو اس میں حصہ لینے والے کھلاڑی طلباء اپنے اپنے گاؤں سے ڈھول باجے کی تھاپ پر نکلتے۔ان کے رشتہ دار، دوست یار ویلیں بھی دیتے تھے۔عام گاؤں کے ان پڑھ لوگ بھی بڑی بڑی خوبصورت پگڑیاں باندھ کر سکول کے بچوں کے ٹورنامنٹ دیکھنے آتے۔یہ ٹورنامنٹ پہلے تحصیل پھر ضلع اس کے بعد ڈویژن اور آخر میں صوبے کی سطح پر ہوتے،لیکن پھر آہستہ آہستہ ایسا دور آیا کہ یہ کھیلیں بالکل ہی ختم ہو گئیں بلکہ گراؤنڈ ہی ختم کر دئیے گئے۔اب تو سکول کوٹھیوں میں بن گئے اور بچوں کی پرورش فارمی مرغیوں کی طرز پر ہونے لگی۔جو قوم اور خصوصاً نوجوان نسل کے لئے انتہائی غلط ہے۔بچوں میں صحت مند مقابلوں کا رجحان ختم ہو گیا۔اس کے بعد نوجوانوں کی فراغت نے سارا دھیان منفی سوچوں کی طرف کر دیا۔باقی جو کسر رہ گئی وہ سوشل میڈیا نے اپنا کام دکھا دیا۔سیاسی بونوں نے اپنے مخالفین کے خلاف انتہائی بھونڈے اور گھٹیا الزامات کے دفاتر کھول دئیے۔ان میں سے سیاسی مخالفین کے علاوہ پاکستان دشمن کے ایجنڈے پرکام کرتے ہوئے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کو بھی اپنے نشانے کی نوک پر رکھا۔گزشتہ روز پاکستان کی وزیر اطلاعات اور انتہائی زیرک سیاستدان مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے فلم اور سینما ہاؤس کے نئے سٹرکچر کے متعلق خوشخبری سنائی۔تو یہ بات دل کو لگی۔سوچا اپنے قلم کے ذریعے نہ صرف ان کی ہاں میں ہاں ملائی جائے بلکہ قوم کی اس مقصد سے آگاہی بھی کی جائے۔
بلاشبہ پرانے سینما گھروں کی جگہ پٹرول پمپ، سی این جی اور شادی ہال بن گئے۔مجھے یاد ہے کہ 1960ء سے لے کر 1977ء تک پاکستان کی فلم انڈسٹری امریکہ اور بھارت کے مقابلے کی فلم انڈسٹری تھی۔لیکن بعد میں دن بدن یہ انڈسٹری زوال پذیر ہوتی چلی گئی۔ اب پھر گزشتہ عید پر پانچ چھ فلمیں ریلیز ہوئیں اور فنکاروں کے بجھے ہوئے چولہے بھی جلنے شروع ہو گئے۔اس کامیابی کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت کے ذیلی ادارے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے پاس جو خالی جگہیں پڑی ہوئی ہیں وہاں سینما ہال تعمیر ہوں گے۔جہاں عوام کو سستی انٹرٹینمٹ میسر ہوگی۔اس قسم کا ایک سینما ہال اسلام آباد کلب کے ممبران کے لئے وہاں موجود ہے۔اسی طرح کے 26 اور سینما ہال تعمیر کئے جائیں گے۔اس کے علاوہ پورے پاکستان میں جہاں جہاں سینما ہوا کرتے تھے، تھیٹراور سٹیج ڈرامے ہوا کرتے تھے وہاں پر بھی یہ فلمیں دکھانے کی کوشش کی جائے گی۔ فلم انکم پر ٹیکس میں بہت حد تک کمی کر دی گئی ہے۔اگر کوئی فلم لیب، میوزک لیب، براڈ کاسٹنگ لیب اور پوسٹ فلم لیب بنائے گا تو اس میں بھی ٹیکس کی مد میں کافی رعایت دی جائے گی۔ فلم بنانے کے لئے فلم فنانس فنڈ کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں ابھی فوری طور پر وزیراعظم نے دو ارب روپے جمع کرادئیے ہیں۔یہ کارپوریٹ یا پرائیوٹ سیکٹر کو تمام سہولتیں مہیا کرنے کے لئے موجودہ حکومت نے دن رات کام کر کے کیا ہے۔
وزیراعظم کی خواہش ہے کہ فلم کا ادارہ صرف چند لوگوں کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ ہر جوان جس میں صلاحیت ہو یا اس نے اس کی تعلیم حاصل کی ہو اور وہ اس طرف آنا چاہتا ہو اس کی ہر مناسب مدد کی جائے۔حکومت کا پروگرام ہے کہ اگلے ہفتے فلم ڈا کومنٹری اور میوزک کے پروگرام کا افتتاح کیا جائے گا۔کلاسک میوزیکل سیل کا بھی افتتاح کر دیا گیا۔ریڈیو پاکستان نے ٹیلنٹ ابھارنے کے لئے ایک میوزیکل پروگرام 15جولائی سے شروع کیا ہے۔ اس میں دور دراز کے پہاڑی علاقوں اور ریگستانوں کے تعلیمی اداروں کے بچوں بلکہ غیر تعلیم یافتہ بچوں کی آوازوں میں نغمے موصول ہوئے ہیں۔ جن کو سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔وہ تمام علاقائی گانے گا رہے تھے۔موسیقی کے ماہر لوگوں نے بتایا کہ ان علاقائی گلوکاروں میں بہت سے کم عمر سطح کے گلوکار شامل ہیں۔ حکومت کی خواہش ہے ریجنل سطح کے گلوکاروں پر مناسب توجہ دے اور انہیں اس فیلڈ میں جدید سہولتیں مہیا کر کے ان کے ٹیلنٹ کو قومی سطح پر اجاگر کیا جائے۔کلاسک گلوکاروں اور خاص طور پر براڈ کاسٹنگ کے لئے ڈیجیٹل لیبارٹریز کا قیام عمل میں لایا جائے گا تاکہ بچے اس سے فائدہ اٹھا کر قومی سطح پر اس فیلڈ میں بھی بڑے بڑے کام کر سکیں۔میرا ذاتی خیال ہے کہ اس پالیسی سے دہشت گردی اور منفی کاموں سے نوجوانوں کو بچایا جا سکے گا۔ اس کام کو آنے والی حکومت کو بھی ترجیحی بنیادوں پر جاری رکھنا چاہیئے۔
وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس سے ایک بہت پرانا قصہ یاد آ گیا وہ قصہ پھر کبھی تحریر کروں گا۔بہرحال اس کا لب لباب یہ ہے کہ قوموں کو سکتے سے کیسے نکالا جائے۔اس کے متعلق دانشوروں، ڈاکٹروں اور ماہر نفسیات کا مشترکہ خیال تھا کہ مناسب اور خوبصورت انٹرٹینمنٹ مہیا کر کے قوم کے مورال کو بحال کیا جا سکتا ہے.اس وقت پاکستانی عوام جو گزشتہ حکومت کی نالائقی اور نا اہلی کی وجہ سے سخت ترین مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے بلکہ اب تو بات فاقوں اور خود کشیوں تک پہنچ چکی ہے۔ایسے پریشان کن حالات میں پوری قوم سکتے میں ہے تو انہیں اسی طرح سکتے سے نکالا جا سکتا ہے۔آخر میں اہم بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ فلم کو 1992ء سے انڈسٹری کا درجہ دیا جا چکا ہے۔اوورسیز پاکستانیوں کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاروں کو بھی دعوت دی جانی چاہئے کہ وہ اس فیلڈ میں سرمایہ کاری کر کے اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ خاص طور پر اس فیلڈ میں پرائیویٹ اور کارپوریٹ سیکٹر کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔