سانحہ 9 مئی کی تحقیقات

(گزشتہ سے پیوستہ) گزشتہ ایک سال میں مذموم سیاسی مقاصد کے حصول اور اقتدار کی ہوس نے ایک جھوٹا اور گمراہ کن پروپیگنڈا چلایا گیا اور چلایا جا رہا ہے جس کا نکتہ عروج بدقسمتی سے 9 مئی کو دیکھا گیا جب پاکستان کے معصوم عوام بالخصوص نوجوانوں سے انقلاب کا جھوٹا نعرہ لگوا کر بغاوت پر اکسایا گیا۔

پاکستان آرمی کی فیصلہ سازی میں مکمل ہم آہنگی اور وضاحت ہے، اس ضمن میں 9 مئی کے واقعات کے بعد 15 مئی کو جاری کی گئی اسپیشل کور کمانڈرز کانفرنس کی پریس ریلیز، 25 مئی کو یومِ تکریم شہدائے پاکستان کا پیغام اور 7 جون کو فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کی پریس ریلیز اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملٹری قیادت اور افواجِ پاکستان 9 مئی کے واقعات سے جڑے ہوئے پسِ پردہ عناصر، ان کے سہولت کاروں اور ایجنڈے سے بخوبی آگاہ ہیں۔ آرمی جن امور پر بالکل متفق اور واضح ہے وہ یہ ہیں کہ سانحہ 9 مئی کو پاکستان کی تاریخ میں نہ بھلایا جائے گا اور نہ ہی ملوث شرپسند عناصر، منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو معاف کیا جا سکتا ہے، اس سانحے سے جڑے تمام منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو آئین وقانون کے مطابق سزائیں دی جائیں گی، چاہے ان کا تعلق کسی بھی ادارے، سیاسی جماعت یا معاشرتی حیثیت سے کیوں نہ ہو۔ اس عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کے ساتھ پاکستانی عوام کی بھرپور حمایت کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا، جس عوامی حمایت کا عکس 9 مئی کے بعد عوامی ردِعمل میں دیکھا گیا۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام اور ملوث افراد کے ٹرائل اور سزاؤں کے حوالے سے کیس فوجی عدالت اور سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے لیکن حقائق کا سمجھنا ضروری ہے۔ اس وقت ملک بھر میں 17 اسٹینڈنگ کورٹس کام کر رہی ہیں، یہ فوجی عدالتیں 9 مئی کے بعد معرض وجود میں نہیں آئیں بلکہ ایکٹ کے تحت پہلے سے فعال اور موجود تھیں۔ ان عدالتوں میں 102 شرپسندوں کے مقدمات سول عدالتوں سے ثبوت دیکھنے کے بعد قانون کے مطابق فوجی عدالتوں میں منتقل کئے گئے ۔ ان تمام ملزمان کو مکمل قانونی حقوق حاصل ہیں، جس میں سول وکیلوں تک رسائی کا حق بھی شامل ہے، اس کے علاوہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق انہیں حاصل ہے۔ آرمی ایکٹ آئین پاکستان اور قانون کا کئی دہائیوں سے حصہ ہے اور اس کے تحت سیکڑوں مقدمات نمٹائے جاچکے ہیں، بین الاقوامی عدالت انصاف نے اس کے عمل کی پوری طرح جانچنے کے بعد توثیق کی ہے۔ حقائق کی موجودگی میں کوئی بھی جھوٹا بیانیہ بنائے تو وہ بناسکتا ہے لیکن حقائق جھٹلائے نہیں جاسکتے۔ سزا اور جزا آئین پاکستان کا حصہ ہے، سزا جرم کے مطابق ہے، فوج بارہا اعادہ کرچکی ہے کہ آئین پاکستان سب سے مقدم ہے اور عوام کی خواہشات کا مظہر ہے۔ 9مئی کا سانحہ فوج یا ایجنسیوں سے منسوب کرنا افسوس ناک اور شرم ناک ہے، یہ بات زہریلی اور سازشی ذہن کی عکاسی ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیجز، آڈیو ریکارڈنگز، تصاویر اور ملوث افراد کے اپنے بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت 9 مئی کو چن چن کر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، 9 مئی سے بہت پہلے ہی لوگوں کی فوج کے خلاف ذہن سازی کی گئی ، فوجی قیادت کے خلاف ذہن سازی کی گئی، کیا یہ ذہن سازی فوجی قیادت نے اپنے خلاف خود کروائی۔ گرفتاری کے چند گھنٹوں میں ملک بھر میں 200 سے زائد مقامات پر صرف فوجی تنصیبات پر حملہ کروایا گیا، کیا راولپنڈی، لاہور، کراچی، چکدرہ، تیمرگرہ، ملتان، لاہور، فیصل آباد، پشاور، مردان، کوئٹہ، سرگودھا، میانوالی اور بہت سے مقامات پر فوج نے اپنے ایجنٹس پہلے سے پھیلائے تھے، کیا فوجیوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے شہدا ء کی قربانیوں کو جلایا، کیا ہم نے اپنے فوجیوں کے ہاتھوں سے اپنے دفاع پاکستان کی علامات گروائیں اور جلایا۔ جب جلاؤ گھیراؤ ہو رہا تھا تو ملک میں اور ملک سے باہر بیٹھ کر نامی اور بے نامی اکاؤنٹس سے کون پرچار کر رہا تھا کہ مزید جلاؤ گھیراؤ اور قبضہ کرو،کیا یہ فوج کروا رہی تھی، بے شمار ثبوت ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ اور پروپیگنڈے کے علاوہ ایک خاص سیاسی گروہ اور اس کی قیادت کے پاس کوئی اور ہتھیار نہیں ہے، یہ بدقسمتی ہے۔پی ڈی ایم کی حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے امریکی سینیٹرز اور دیگر کے الزامات جیسا بیانیہ ریاست پاکستان کے خلاف پہلے بھی بنایا جاتا رہا ہے اور اس کی کلیدی آواز باہر سے ہوتی ہے لیکن اس میں بدقستمی سے ملک میں بیٹھے عناصر اس کو تقویت دیتے ہیں۔ ماضی گواہ ہے کہ یہ عناصر وہ دہشت گرد تنظیمیں ہوتی ہیں جب ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو انسانی حقوق، جبر اور اقدار کے پیچھے چھپ جاتے ہیں، اس وقت مختلف طریقوں سے چلایا جا رہا ہے، سوشل میڈیا پر فیک ویڈیوز چلائی جاتی ہیں، پرانی تصاویر اور ویڈیو ڈالی جاتی ہیں، چیزوں کو جوڑا جاتا ہے اور غلط بیانات بنائے جاتے ہیں تاکہ تاثر پھیلا جا ئے کہ ریاست پاکستان جبر کر رہی ہے۔ فیک آڈیوز جلدواضح بھی ہو جاتی ہیں۔ ( جاری ہے )