تعلیم گاہیں اور الحاد پرستی کا طوفان

سوشل میڈیا کے مطابق اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی کے سینکڑوں طلباء و طالبات نے ہندو مذہب کی رسم ’’ہولی‘‘ منائی، کیا قائداعظم یونیورسٹی میں ہندو طلباء کی تعداد سینکڑوں میں ہے، اس سوال کا جواب معروف اور سینئر صحافی اپنے کالم میں دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یونیورسٹی میں ہندو طلباء و طالبات کی کل تعداد دس، بارہ کے لگ بھگ ہے، مطلب یہ کہ دس اور بارہ ہندو طلباء اپنے مذہب کی رسم ’’ہولی‘‘ منا رہے ہوتے تو شائد کسی کو اعتراض نہ ہوتا، مگر ’’ہولی‘‘ کی رسم میں تو درجنوں مسلمان، طلباء و طالبات بھی شریک تھے۔

ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسلمان طلباء و طالبات اپنے مذہب اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو سمجھنے سے عاری ہیں؟ ان طلباء و طالبات کی دینی اور روحانی تربیت کس کی ذمہ داری ہے؟ کیا ریاست پاکستان کی ذمہ داری نہیں کہ وہ مسلمانوں کو اسلامی ماحول فراہم کرے، پاکستان کے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں طلباء و طالبات ہی نہیں بلکہ اساتذہ کرام، پروفیسرز، لیکچرارز وغیرہ کے لئے اسلامی ماحول فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ پہلی بات اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ نے مسلمان طلباء و طالبات کو ہندو مذہب کی رسم ’’ہولی‘‘ منانے سے روکنے کی کوئی کوشش کی، اگر نہیں تو کیوں؟ اس خاکسار نے جمعرات کے روز اپنے شائع ہونے والے کالم ’’جیلیں اور یاد ماضی‘‘ میں لکھا تھا کہ جنہیں قیدیوں کی بیرکوں میں بند ہونا چاہیے تھا وہ جیل حکام بنے پھرتے ہیں، یہی کیفیت ادھر بھی ہے، جن کی اپنی اصلاح اور تربیت ہونے والی ہو، وہ طلباء و طالبات کی کیا خاک تربیت کریں گے، مسلمان والدین کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی یونیورسٹیوں میں اپنے بچوں اور بچیوں کو بھیجنے کے بعد ان کے ایمان کی سلامتی کے لئے دعائیں ضرور مانگا کریں۔ اس بات پہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان یونیورسٹیز اور کالجز میں جو سیکولر اور لبرل الحاد پرستی کے طوفان اٹھائے جارہے ہیں۔ نوجوان نسل جب الحاد پرستی کے ان طوفانوں کا نشانہ بن کر نہ خدا کی رہے گی، نہ رسولﷺ کی، نہ ماں، باپ کی رہے گی اور نہ وطن کی۔ جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پاکیزہ تعلیمات کو پس پشت ڈال کر عیسائیوں کے ساتھ عیسائی، یہودیوں کے ساتھ یہودی اور ہندوئوں کے ساتھ ہندوانہ طرز اختیار کرکے شرمندگی محسوس کرنے کی بجائے فخر محسوس کریں، ایسا گروہ مسلمان معاشرے کے لئے ناسور کی حیثیت رکھتا ہے۔ آنجہانی رسوا کن ڈکٹیٹر کے تاریک دور میں جب دجالی چینلز کی سیاہ کاریاں شروع ہوئیں تو ہم جیسے طالب علموں نے تب ہی یہ بات اپنے کالموں میں لکھنا شروع کر دی تھی کہ بے لگام دجالی میڈیا نئی نسل کے دل و دماغ پہ جب قبضہ جمائے گا تو پھر یہ نسل ’’نہ اِدھر کی رہے گی اور نہ اُدھر کی‘‘ آج دجالی میڈیا، ڈالر خور این جی اوز کے دستر خوان کی راتب خور ینگ جنریشن کے لچھن دیکھ لیجئے، یہ بے چارے نہ ’’ہی‘‘ میں رہے اور نہ ’’شی‘‘ میں، انہوں نے کھڑے ہو کر کھانا، کھڑے ہو کر پیشاب کرنا، ہم جنس پرستی، میرا جسم میری مرضی کے واہیات نعروں کو ہی روشن خیالی کی معراج سمجھ رکھا ہے، یہ دن میں پانچ فرض نمازوں میں سے بھلے ایک بھی ادا نہ کریں، مدتوں قرآن پاک کی تلاوت سے محروم رہیں، سالوں تک شائد انہیں جمعہ پڑھنا بھی نصیب نہ ہو، ممکن ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہوئے بھی انہیں عید کی نماز ادا کرنے میں بھی موت نظر آتی ہو، ہاں وہ ہندوئوں کے ساتھ مل کر ان کی رسم ہولی ضرور مناتے نظر آئیں گے۔ میرے نزدیک اس گروہ سے وابستہ طلباء و طالبات قابل رحم ہیں، اور اس سے زیادہ قابل رحم یونیورسٹی کی انتظامیہ اور وہ سہولت کار ہیں کہ جو مختلف این جی اوز کی ڈالر خوری کے چکر میں مسلمان طلباء و طالبات کو جان بوجھ کر الحاد پرستی کے گندے جوہڑ میں دھکیلنے کا سبب بن رہے ہیں، اگر پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہوتا تو وقت کا حکمران اپنی سب سے طاقتور ایجنسی کو یہ حکم جاری کرتا کہ صرف قائداعظم یونیورسٹی ہی نہیں بلکہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، لیکچرار اور انتظامیہ کے افراد کی انکوائری کرکے رپورٹ تیار کی جائے گی ان میں کون، کون، کس کس غیر ملکی این جی اوز کے دستر خوان کا راتب خور ہے؟ غیر ملکی این جی اوز کے دستر خوان کے راتب خوروں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ایک اسلامی نظریاتی مملکت کی تعلیم گاہوں میں جامیؒ و عزالیؒ تیار کریں گے، حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں، اب تو یورپ فنڈڈ این جی اوز کے دستر خوانی قبیلے میں کئی ’’مولوی زادے‘‘ بھی شامل ہوچکے ہیں۔ ’’مولوی زادے‘‘ تو رہے ایک طرف، بعض صاحبزادوں کا چھلکتا ’’علم‘‘ تو سنبھالا بھی نہیں جاتا، بے شرمی، بے حیائی، بے عیرتی جب ہر حد کراس کر جائے اور نظریاتی اسلامی مملکت کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ محض خاموش تماشائی بنے یہ سب ہوتا ہوا دیکھتی رہے تو پھر آسمانوں سے پتھر برسا کرتے ہیں۔ ’’زلزلے‘‘ زمین کو تہہ و بالا کر دیا کرتے ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی آئین پاکستان اور اسلامی تعلیمات پر گہرے وار کر رہی ہے، حکومت اس کا نوٹس لے اور تعلیمی اداروں میں گھسی ہوئی ان بدروحوں کا علاج کرے کہ جنہیں ہندو ازم اور اسلام میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔