سلیمان علیہ السلام‘ ملکہ بلقیس‘ کرامت‘ معجزہ

(گزشتہ سےپیوستہ)
مسلمین‘ مسلم کی جمع ہے جس کے لغوی معنی مطیع و فرمانبردار کے ہیں۔ اصطلاح شرع میں مومن کو مسلم کہا جاتا ہے۔ یہاں بقول ابن عباسؓ اس کے لغوی معنی مراد ہیں‘ یعنی مطیع و فرمانبردار۔ کیونکہ ملکہ بلقیس کا اسلام لانا اس وقت ثابت نہیں بلکہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر ہونے اور کچھ گفتگو کرنے کے بعد مسلمان ہوئی ہے جیسا کہ خود قرآن کریم کے آنے والے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے۔ 
یعنی کہا اس شخص نے جس کے پاس علم تھا کتاب میں سے۔ یہ کون شخص تھا؟ اس کے متعلق ایک احتمال تو وہ ہی جو خلاصہ تفسیر میں لکھا گیا ہے کہ خود حضرت سلیمان علیہ السلام مراد ہیں کیونکہ کتاب اللہ کا سب سے زیادہ علم انہیں کو حاصل تھا۔ اس صورت میں یہ سارا معاملہ بطور معجزہ کے ہوا اور یہی مقصود تھا کہ بلقیس کو پیغمبرانہ اعجاز کا مشاہدہ ہو جائے اور کوئی اشکال اس معاملے میں نہ رہے مگر اکثر ائمہ تفسیر قتادہ وغیرہ سے ابن جریر  نے نقل کیا ہے اور قرطبی نے اسی کو جمہور کا قول قرار دیا ہے کہ یہ کوئی شخص حضرت سلیمان علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھا۔ ابن اسحاق نے اس کا نام آصف بن برخیا بتلایا ہے  اور یہ کہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا دوست تھا اور بعض روایات کے اعتبار سے ان کا خالہ زاد بھائی بھی تھا جس کو اسم اعظم کا علم تھا جس کا خاصہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ  سے جو بھی دعا کی جائے قبول ہوتی ہے اور جو کچھ مانگا جائے اللہ کی طرف سے عطا کر دیا  جاتا ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ  حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس اعظم کا علم نہیں تھا کیونکہ یہ کچھ بعید نہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے مصلحت اس میں دیکھی ہو کہ یہ عظیم کارنامہ ان کی امت کے کسی آدمی کے ذریعہ ظاہر ہو جس سے بلقیس پر اور زیادہ اثر پڑے اس لئے بجائے خود یہ عمل کرنے کے اپنے اصحاب کو خطاب فرمایا۔ اس صورت میں یہ واقعہ آصف بن برخیا کی کرامت ہوگی۔
معجزہ اور کرامت میں فرق‘ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح معجزہ میں اسباب طبعیہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے‘ اسی طرح کرامت میں بھی اسباب طبعیہ کاکوئی دخل نہیں ہوتا براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے کوئی کام ہو جاتا ہے اور معجزہ اور کرامت دونوں خود صاحب معجزہ   و کرامت کے اختیار  میں بھی نہیں ہوتے۔ ان دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ ایسا کوئی خارق عادت کام اگر کسی صاحب وحی نبی کے ہاتھ پر ہو تو معجزہ کہلاتا ہے غیر نبی کے ذریعہ اس کا ظہور ہو تو کرامت کہلاتی ہے اس واقعہ میں اگر یہ روایت صحیح ہے کہ یہ عمل حضرت سلیمان علیہ السلام کے اصحاب میں سے آصف  بن برخیا کے ذریعہ ہوا تو یہ ان کی کرامت کہلائے گی اور ہر ولی کے کمالات چونکہ ان کے رسول و پیغمبر کے کمالات کا عکس اور انہی سے مستفاد ہوتے ہیں اس لئے امت کے اولیاء اللہ کے ہاتھوں جتنی کرامتوں کا ظہور ہوتا رہتا ہے یہ سب رسول کے معجزات میں شمار ہوتے ہیں۔
تخت بلقیس کا واقعہ کرامت تھی یہ تصرف‘ شیخ اکبر محی الدین  ابن عربی نے اس کو آصف بن برخیا کا تصرف قرار دیا ہے۔ تصرف اصطلاح میں  خیال و نظر کی طاقت استعمال کرکے حیرت انگیز کام صادر کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کے لئے نبی یا ولی بلکہ مسلمان ہونا بھی شرط نہیں‘ وہ مسمریزم جیسا ایک عمل ہے۔ صوفیائے کرام نے اصلاح مریدین کے لئے کبھی کبھی اس کو استعمال کیا ہے۔ ابن عربی نے فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام چونکہ تصرف کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اس لئے حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ کام آصف بن برخیا سے لیا۔ 
رہا یہ شبہ کہ ان کا یہ کہنا کہ یعنی میں یہ تخت آنکھ جھپکنے سے پہلے لادوں گا۔ یہ علامت اس کی ہے کہ یہ کام ان کے قصد و اختیار سے ہوا جو علامت تصرف کی ہے کیونکہ کرامت ولی کے اختیار میں نہیں ہوتی تو اس کا یہ جواب ہوسکتا ہے کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ اطلاع کر دی ہو کہ تم ارادہ کرو گے تو ہم یہ کام اتنی جلدی کر دیں گے۔ یہ تقریر حضرت سیدی حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس کی ہے جو احکام القرآن میں سورہ نمل کی تفسیر لکھنے کے وقت حضرت نے ارشاد فرمائی تھی اور تصرف کی حقیقت اور اس کے احکام پر حضرت کا ایک مستقل رسالہ بنام ’’التصرف‘‘ عربی زبان میں تھا جس کا ارادہ ترجمہ احقر نے لکھا تھا وہ جداگانہ شائع ہوچکا ہے۔
(سلیمان علیہ السلام نے یہ سب سامان کر رکھا تھا‘ پھر بلقیس پہنچی) سو جب بلقیس آئی تو اس سے (تخت دکھا کر) کہا گیا (خواہ سلیمان علیہ السلام نے خود کہا  ہو یا کسی سے کہلوایا ہو) کہ کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے؟  وہ کہنے لگی کہ ہاں ہے تو  ویسا ہی (بلقیس سے اس طور پر اس لئے سوال کیا کہ ہیئت تو بدل گئی تھی اپنی اصل کے اعتبار سے تو وہی تخت تھا اور صورت وہ نہ تھی۔ اس لئے یوں نہیں کہا کہ کیا یہی تمہارا تخت ہے بلکہ یہ کہا کہ ایسا ہی تمہارا تخت ہے اور بلقیس اس کو پہچان گئی اور اس کے بدل دینے کو بھی سمجھ گئی اس لئے وہ اب بھی مطابق سوال کے دیا) اور یہ بھی کہا کہ ہم لوگوں کو تو اس واقعہ سے پہلے ہی (آپ کی نبوت) کی تحقیق ہوچکی ہے اور ہم اسی وقت سے دل سے مطیع ہوچکے ہیں۔