توشہ خانہ کیس،عمران خان کے وارنٹ گرفتاری برقرار،18مارچ کو عدالت میں پیش کرنیکا حکم

اسلام آباد(نیوزڈیسک)ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے وارنٹ گرفتاری برقراررکھنے کا محفوظ فیصلہ سنا دیا ،جمعرات کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج ظفراقبال نے وارنٹ گرفتاری پر محفوظ فیصلہ سنایا،اس سے قبل سیشن کورٹ اسلام آباد میں توشہ خانہ سے متعلق کیس میں وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج ظفراقبال نے وارنٹ گرفتاری پر فیصلہ محفوظ کیاتھا۔سیشن کورٹ اسلام آباد میں توشہ خانہ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکلاء کو طلب کر کیا گیا تھا۔سیشن کورٹ اسلام آباد میں توشہ خانہ سے متعلق کیس کی سماعت میں 12بجے تک وقفہ دیتے ہوئے عدالتی عملے کو ہدایات جاری کیں کہ 12بجے تک الیکشن کمیشن کو کہیں کہ عدالت پہنچیں،جج ظفراقبال کی ہدایات پر الیکشن کمیشن کے وکلا کو طلب کیاگیا، سماعت کے آغاز پر وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا وارنٹ بحالی کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔جج نے ریمارکس دیے کہ آپ کو کیا لگتاہے کیس قابل سماعت ہونے سے متعلق الیکشن کمیشن کو نوٹس دینا چاہیے؟ جج سیشن کورٹ کا کہنا تھا کہ مسئلہ سیکنڈ میں حل ہو سکتا ہے، عمران خان کہاں ہیں؟جج نے وکیل سے استفسارکرتے ہوئے کہا کہ عمران خان ذاتی حیثیت میں عدالت کہاں پیش ہوئے ہیں؟ انڈرٹیکنگ کا تصو ر کہاں پر ہے؟جس پر وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ سیکشن 76 میں انڈر ٹیکنگ کا تصور موجود ہے۔جج کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ فیصلہ اب تک عدالتی طریقہ کار سے سیشن کورٹ کو نہیں ملا۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا ضروری ہے کہ عمران خان کو گرفتار کرکے ہی عدالت لائیں؟سیشن کورٹ کے جج نے جواب دیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان عدالت آجائیں،عمران خان کیوں نہیں آرہے، وجہ کیا ہے؟ قانون کے مطابق عمران خان نے پولیس سے تعاو ن کرناہے مزاحمت نہیں، جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے مزاحمت کرکے سین کو بنانا نہیں ہے۔جج نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ آرڈر کو دیکھ کر آپ کی درخواست کو دیکھتے ہیں،سیکشن 76 میں تو قابل ضمانت وارنٹ سے متعلق لکھا ہے ناقابل ضمانت نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ غیرقانونی عمل سے آرڈر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے، اگر قابل ضمانت وارنٹ ہوتے تو مسئلہ ہی کچھ نہ ہوتا، وارنٹ ناقابلِ ضمانت ہیں، آپ جو دلائل د ے رہے ہیں وہ قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے مطابق ہیں، جج نے ریمارکس میں کہا کہ کیس میں شورٹی تو آئی ہوئی ہے۔اس موقع پر وکیل کا کہنا تھا کہ کیا یہی سختی رکھنی ہے کہ ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری رکھنے ہیں۔جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وارنٹ گرفتاری عمران خان کی ذاتی حیثیت میں پیشی کے لیے ہیں۔وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عمران خان تو خود کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت آنا چاہتاہوں،عمران خان استثنیٰ نہیں مانگ رہے، عدالت آنا چاہتے ہیں۔ کیا اس وقت ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کے فیصلے کی ضرورت ہے؟ آپ کے پاس دو آپشنز موجود ہیں، درخواست گزار آنا چاہتے ہیں،پہلا آپشن آپ انڈرٹیکنگ کی درخواست منظور کرکے ناقابلِ ضمانت وارنٹ منسوخ کردیں،دوسرا آپشن آپ شور ٹی لے کر قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کریں،عمران خان انڈرٹیکنگ دینا چاہتے ہیں کہ 18 مارچ کو سیشن عدالت پیش ہوں گے۔جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کا حکم پڑھ کر آپ کی درخواست کا جائزہ لوں گا۔ اس موقع پر عمران خان کے وکلاء نے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی استدعا کردی۔جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا نہیں دنیا کا سب سے مہنگا وارنٹ ہے، وارنٹ پر کروڑوں روپے لگ گئے کیا ایسا ہو نا چاہیے تھا؟وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اس میں حکومت کا قصور ہے،میں ذاتی حیثیت میں مذمت کر رہا ہوں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا،تین سے زیادہ ایسے واقعات ہوئے ہیں جس میں تشدد ہو ا اورمقدمات کیے گئے، درخواست گزار کو بھی احساس ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان عدالت آتے اور معاملہ ختم ہو جانا تھا اور عدالتی کارروائی شروع ہو جانا تھی۔وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عمران خان نے عدالت آنے کی انڈر ٹیکنگ دی ہے،جج نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارا غریب ملک ہے کروڑوں روپے غیر ضروری خرچ ہوئے۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ حکومت کو حملہ نہیں کرنا چاہیے تھا،پورے پنجاب کی پولیس زمان پارک لائی گئی۔ناقابل ضمانت وارنٹ ہیں، اس موقع پر وارنٹ میں کیا ترمیم کریں؟ جج نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قانون کے مطابق عمران خان کو سیدھا عدالت لانا تھا،عمران خان کو عدالتی پیشی پر ہراساں کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت نے معاملے کو سیاسی انتقام بنا دیا،گرفتاریاں ہوئیں۔جج نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عمران خان اب بھی سرینڈر کر دیں تو آئی جی کو حکم دے دیتا ہوں کہ گرفتار نہ کریں،قانون کے مطابق وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، مزاحمت کیوں ہوئی؟عوام کے پیسے ہیں، زیادہ سے زیادہ پر امن احتجاج کرلیتے۔اس موقع پر وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت پر کیس کرنا چاہیے کہ کروڑوں روپے ضائع کردیئے۔جج نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فوجداری کارروائی میں عموماً ملزمان ذاتی حیثیت میں عدالت پیش ہوتے ہیں، ملزمان عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور وارنٹ ختم کوجاتے ہیں، ایسا نہیں کہ وارنٹ کی تاریخ 18 مارچ ہے اور پولیس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو لاء افسر نے عدالت سے استدعا کرے ہوئے کہا کہ وکیل درخواست گزار پشاور میں ہیں تھوڑی دیر تک پہنچ جائیں گے، ڈھائی بجے تک عدالت پہنچ جائیں گے،وقفہ کیا جائے۔سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او جنہوں نے وارنٹ کی تعمیل کرانی تھی وہ ابھی لاہور میں ہیں۔جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات صرف سادہ سی تھی لیکن الجھا دی گئی،وارنٹ صرف عمران خان کو عدالت میں پیش کرنے کی حد تک تھے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہاکہ عمران خان کے وارنٹ ٹھیک جاری کیے ہیں۔اس موقع پر وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے عدالت تمام پہلوؤں کو دیکھے، عدالت دیکھے کہ ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنا ٹھیک ہے یا نہیں۔وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عدالت عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری واپس لے،سیشن عدالت اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے الفاظ کو سمجھے،سیشن عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وارنٹ گرفتاری کے فیصلے کو 2دن روک لیں، عمران خان توشہ خانہ کیس میں عدالت آئیں گے،عدالت میں عمران خان کو پکڑ کر لانا اور خود چل کر آنے میں فرق ہوگا۔جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی جانب سے مزاحمت بہت عجیب ہے، لڑائی جھگڑا نہیں ہونا چاہیے تھا،لیگل ٹیم کو پی ٹی آئی کارکنان کو بتانا چاہیے کہ قانون کے ساتھ تعاون کرنا ہوتاہے، عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے آنے تک سماعت میں وقفہ کردیا۔وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کے کسی نمائندے کو عمران خان سے ملنے نہیں دیاگیا۔جج نے سوال کیا کہ اب تک وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟عدالت نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا کہتے ہیں استثنیٰ دینا چاہیے یا نہیں؟آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ کارکنان کے خلاف پولیس کو طاقت کے استعمال سے روکاہوا ہے، ہمارے سینئر آفیسرز وہاں پر موجود ہیں۔ ہماری پولیس فورس کو پتھروں، پیٹرول بم اور ڈنڈوں کاسامنا کرناپڑا۔ ان 65 اہلکاروں کی جانب سے بھی حاضر ہوا ہوں جو زخمی حالت میں اسپتالوں میں ہیں، ہمیں اس سے پہلے کبھی اس کا سامنا نہیں کرنا پڑا ماسوائے جہاں دہشتگردی تھی،ہمارے اہلکاروں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا، آئی جی اسلام آباد نے زخمی افسران اور اہلکاروں کی فہرست عدالت میں پیش کی تھی۔