انتخابات، الیکشن کمیشن و سیاسی جماعتیں آمنے سامنے!

٭ …90 دنوں میں انتخابات ناممکن ہیں، الیکشن کمیشن کی تحریری وضاحت! پیپلزپارٹی، ن لیگ، پی ٹی آئی جماعت اسلامی اور دوسری پارٹیوں کا90 روز میں انتخابات کا مطالبہ!O جڑانوالہ میں صورت حال معمول پر، اعلیٰ سطح پر تحقیقات جاری، نگران وزیراعلیٰ کی زیرصدارت بین المذاہب کمیٹی کے اجلاس میں مسیحی عبادت خانوں اور گھروں کو نذرآتش کرنے کی شدید مذمت، اجلاس میں بڑے مسیحی، ہندو، سکھ قائدین بھی شریک ہوئےO صدر پاکستان نیپرا کے ڈائریکٹر احمد ندیم کو برطرف کا حکم، ماتحت خاتون ملازمہ کی ہراسگی ثابت O بلوچستان ’شیر علی مردان ڈومکی، نگران وزیراعلیٰ مقرر، حلف اٹھا لیا۔ نوازشریف نہیں آئیں گے، قریبی ذرائع کا انکشاف، عمر زیادہ، ذیابیطس، دِل کی تکلیف، جیل میں نہیں رہ سکتے، انتخابی مہم نہیں چلا سکتے!! تین بار وزیراعظم بنے تینوں بار نکالے گئےO اعلیٰ افسروں کے وسیع پیمانہ پر
تبادلے، سندھ بلوچستان آزادکشمیر کے چیف سیکرٹری، اسلام آباد کے چیف کمشنر تبدیلO مریم نواز، رانا ثناء اللہ، احد چیمہ کی ضمانتوں کی منسوخی کا کیس پھر زیرسماعت!Oکم سن ملازمہ رضوانہ کا پولیس کو بیان ریکار، معطل سول جج عاصم حفیظ کی بیوی سومیہ کے لرزہ خیز مظالم کی ذہن سُن کر دینے والی تفصیل! دوسری دو بچیوں، فاطمہ اور عندلیب کے بھی بالکل اس طرح کے قِصّے! رانی پور کے پیر اور پیرنی کے ہولناک مظالم سے بچی ہلاک، جلدی سے دفنا دی، قبر کشائی، پوسٹ مارٹمO بھارت: منی پور میں پھر نسلی فسادات، 3 قبائلی ہلاک، 80 گرجا گھر، مسیحی برادری کے سینکڑوں گھر، 30 لاکھ مسیحی باشندے شدید ہراساںO پختونخوا میں 9 وزیر، 2 مشیر، ایک خصوصی معاون (کابینہ:5 سیّد ارکان!)O بھارت، دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک، چین سے بھی 56 لاکھ زیادہ آبادیO پٹرول کی مہنگائی، جماعت اسلامی کا ملک گیر احتجاج، لاہور میں 30 مقامات پر مظاہرےO لاہور پریس کلب، روئت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالخبیر آزاد اور مسیحی قائدین کا مشترکہ اجلاس، جڑانوالہ واقعات کی سخت مذمت!O ’آصفہ زرداری‘ رانی پور، کم سن ملازمہ فاطمہ کے قاتل کو سخت ترین سزا دی جائے‘‘ O اسلام آباد: 10 سالہ بچی عندلیب پر مظالم کی مبینہ ذمہ دار مالکن زیتون نمرا کی 50 ہزار روپے کی ضمانت منظور!O ستلج میں شدید سیلاب! ٭ …عجیب معاشرہ! سیاسی بدحالی، اسمبلیاں ختم، نئی اسمبلیوں کا امکان دکھائی نہیں دے رہا، جڑانوالہ میں ناقابل بیان واقعات، سینکڑوں مقدمات، گرفتاریاں اور کم سن ملازم بچیوں پر مالکان کے قیامت خیز مظالم، یکساں لرزہ خیز کہانیاں!! ہر جگہ وحشت، دہشت، چوریاں، ڈاکے! اس وقت ملک میں سیاسی افراتفری کا عالم یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کے 9 اپریل کو نئے انتخابات ہونے تھے۔ پی ڈی ایم کے حکمرانوں نے ایسے چکر چلائے کہ انتخابات آج 20 اگست تک نہیں ہو سکے۔ کوئی نہ کوئی تمسخرانہ بہانہ، قومی و باقی تین صوبائی اسمبلیوں کو عیاری، مکاری کے ساتھ مقررہ وقت سے پہلے توڑ کر انتخابی مدت میں ایک ماہ کا اضافہ کر لیا یہ صریح آئین شکنی تھی، 13 اگست کی بجائے 12 اگست کو اسمبلیاں توڑنے کی کوئی سیاسی، اخلاقی، اصول، معاشرتی وجہ بیان نہیں کی گئی۔ مارشل لائوں جیسا بدتر رویہ! آئین کے مطابق 12 اگست کو تحلیل ہونے والی اسمبلیوں کے نئے انتخابات 12 اکتوبر کی بجائے 12 نومبر پر چلے گئے۔ یہ بھی ممکن نہ رہے۔ الیکشن کمیشن نے ٹھوس موقف اختیار کیا کہ نئی مردم شماری کے نتائج موجود ہیں۔ ان کے مطابق آبادی میں تقریباً دو کروڑ افراد کا اضافہ ہو چکا ہے، اس کے باعث نئی حلقہ بندیاں ضروری ہیں۔ یہ کام 14 دسمبر سے پہلے مکمل نہیں ہو سکتا! اس کے بعد الیکشن کے شیڈول کا اعلان ہو گا۔ انتخابی انتظامی تیاریوں، ہزاروں پولنگ سٹیشن کے قیام، ہزاروں افراد کے عملہ کی تقرریوں، کروڑوں ووٹوں کی امیدواروں کی تصویروں والی چھپائی اور سکیورٹی کے انتظامات میں کم از کم مزید چار ماہ لگ سکتے ہیں۔ اس طرح اگلے سال فروری یا مارچ سے پہلے انتخابات ممکن نہیں ہو سکتے۔ ٭ …دوسری طرف تقریباً تمام اہم پارٹیوں، ن لیگ، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے الیکشن کمیشن کے موقف کو مسترد کر دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ انتخابات آئین کے مطابق 90 دنوں میں پرانی مردم شماری کے مطابق کرائے جائیں۔ یہ مطالبہ تسلیم کر لیا جائے تو نئی مردم شماری کے مطابق آبادی میں اضافہ ہونے والے تقریباً دو کروڑ افراد ووٹ دینے سے محروم ہو سکتے ہیں۔ یہ عمل آئین میں دیئے جانے والے بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے اور عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے۔ عدالتی مہم جوئی بھی کئی ماہ لے سکتی ہے۔ بات پھر اگلے سال تک پہنچے گی۔ عدالت بہرحال آئین میں دیئے جانے والے بنیادی حقوق کو تحفظ دے گی! سو اس سال بہرحال انتخابات دکھائی نہیں دے رہے۔ ایک پہلو اور بھی ہے، اگلے چند ماہ میں تحریک انصاف کے درجنوں رہنمائوں اور ارکان کے خلاف سینکڑوں مقدمات کے فیصلے آ رہے ہیں (صرف عمران خان کے خلاف 180 مقدمے) اِن فیصلوں سے معاشرہ میں سیاسی ابال آ سکتا ہے جس کی موجودگی میں انتخابات ناممکن ہو سکتے ہیں، لڑائی جھگڑوں کی حالت میں انتخابی جلسے تو روکنا، گلیوں محلوں میں بھی فسادات پھیل سکتے ہیں۔ ملک عجیب سیاسی کباڑخانہ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ خدا پناہ! ٭ …اور کیا معاشرتی زوال ہے کہ جگہ جگہ سے کم سن ملازم بچیوں پر ہولناک، دل دہلا دینے والے واقعات ابھر رہے ہیں۔ اس وقت تین کم عمر معصوم بچیوں کے ساتھ انسانیت سوز قیامت خیز واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ ایک جیسی دل دہلا دینے والی داستانیں، انسان اتنا وحشی ہو سکتا ہے؟ استغفار! ایک بچی کو ناگفتہ تشدد کے بعد ہلاک کر دیا گیا۔ یہ ایک جلاس پیرخانہ کی واردات ہے۔ قاتل لوگ اتنے بااثر کہ بچی کے قتل کے چشم دید گواہوں کو زبان بند رکھنے ورنہ قتل کی دھمکیاں! معاشرے میں نام نہاد پیرخانوں کے پیرو، پیرنیوں نے اندھیر مچا رکھا ہے۔ کوئی شرم، حیا، غیر؟؟ ملک کا نام اسلامی جمہوریہ، قومی مذہب اسلام، ہزاروں مسجد، لاکھوں حاجی و عمرے والے موجود اور انسانیت سوز و انسانیت فروشانہ کرتوت! اِنّا لِلّٰہِ واِنّا الیہ راجعون! یہ معاملات اتنے بے قابو اور سنگین ہو چکے ہیں کہ سیاسی رہنما مریم نواز اور آصفہ زرداری بھی چیخ پڑی ہیں۔ مریم نواز سارے کام چھوڑ کر لاہور کے ہسپتال میں زیرعلاج مظلوم بچی رضوانہ کی عیادت کے لئے پہنچ گئیں، آصفہ زرداری نے مطالبہ کیا ہے کہ رانی پور کی مقتول بچی کے قاتلوں کو عبرت ناک سزا دی جائے! ٭ …بہت سی خبریں رہ جاتی ہیں۔ جڑانوالہ، ’مرزا صاحباں‘ کی رومانی لوک داستان کا محافظ شہر، میں دو تین بار، وہاں جا چکا ہوں، نہائت پُرسکون شہر! پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی؟ اچانک شعلوں کی زد میں آ گیا! اس میں جو کچھ ہوا، اس کی بار بار تفصیلات بیان کرنے کی ہمت نہیں پڑ رہی! صورت حال معمول پر آ رہی ہے مگر…مگر! کچھ واقعات سامنے آ رہے ہیں، جذبات تہ و بالا ہو جاتے ہیں! جڑانوالہ میں آتش زدہ ایک سادہ سے گھر کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھی ایک معمول خاتون گھر کی حالت دیکھ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھے رو رہی ہے، اس غم زدہ خاتون کے پاس اس کا سات سالہ بچہ کھڑا ہے اور…اور دل تھام کر پڑھئے، اس بچے نے سر سے پائوں تک پاکستان کے یوم آزادی پر سبز پرچم والا لباس پہن رکھا ہے۔ دل دہل جاتا ہے۔ میں عالم تصور میں اس خاتون اور بچے سے معافی مانگتا ہوں۔ شاعر لوگ بہت حساس ہوتے ہیں، ذرا ذرا سی ناملائم بات پر جذباتی ہو جاتے ہیں۔ مجھے بہت سے مسیحی اور مسلمان شاعروں ادیبوں کے دکھ بھرے پیغامات آ رہے ہیں۔ میں نے مسیحی شاعروں اور شاعرات سے فرداً فرداً ہمدردی اور دکھ کا اظہار کیا ہے، ان میں آسناتھ کنول، نذیر، آفتاب جاوید، کنول فیروز اور دوسرے افراد شامل ہیں۔ آسناتھ کنول بتا رہی ہیں کہ اس برس لاہور میں 30 سے زیادہ گرجا گھروں میں جوش و خروش کے ساتھ یوم آزادی منایا گیا، سبز پرچم لہرائے گئے، قومی نغمے گائے گئے ’’میں بھی پاکستان ہوں، تو بھی پاکستان ہے‘‘ کا نغمہ زیادہ گایا گیا اور پاکستان زندہ باد کے پرجوش نعرے لگائے گئے، سب سے بڑا اجتماع ریلوے سٹیشن کے قریب نولکھا چرچ میں ہوا۔ آسناتھ کنول مضبوط لہجے میں باتیں کرتے کرتے اچانک دکھ بھرے لہجے میں پوچھتی ہے، شاہ صاحب! جڑانوالہ میں کیا ہوا، کیوں ہوا؟؟ میں کیا جواب دوں؟