اہم خبریں

ممتاز نعت خواں مظفر وارثی کی آج 12 ویں برسی منائی جارہی ہے

لاہور(نیوز ڈیسک) اردو کے ممتاز شاعر اور نعت خواں مظفر وارثی کی 12 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔ مظفر وارثی 23 دسمبر 1933ءکو میرٹھ میں پیدا ہوئے تھے، ان کا اصل نام محمد مظفر الدین صدیقی تھا، آپ کی وجہ شہرت لازوال حمد اورنعتیں تخلیق کرنا بنا۔وہ ایک خوش گو شاعر تھے اور قیام پاکستان کے بعد انہوں نے لاہور میں اقامت اختیار کی اور جلد ہی ان کا شمار ممتاز شعراء کرام میں ہونے لگا۔مظفر وارثی کی مشہور نعت یارحمت اللعالمین، لانبی بعد، ورفعنالک ذکرک، تو کجا من کجا اور حمدیہ کلام میں مشہور حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ماضی میں پاکستانی فلم انڈسٹری مظفر وارثی کے بغیر ادھوری تھی، ان کے مشہور فلمی گانوں میں کیا کہوں اے دنیا والو کیا کہوں میں، مجھے چھوڑ کر اکیلا کہیں دور جانے وال، یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو، عوام میں زبردست مقبولیت ملی۔فنی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے ایوارڈ سے نوازا گیا انہیں فصیح الہند اورشرف الشعرا کے خطابات عطا بھی ہوئے۔ فلمی اور قلمی دنیا کا یہ درخشندہ ستارہ 28جنوری 2011 کو ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا۔مظفر وارثی موجودہ صدی کی چند گنی چنی آوازوں میں سے ایک اور عہد حاضر میں پاکستان کے نمایاں ترین شاعر اور نعت خواں ہیں۔ اردو کے عہدسازشاعروں کی اگرغیرجانبداری سے فہرست تیارکی جائے توان کے نام سے بچناناممکن ہے۔

مظفر وارثی (ولادت: 20 دسمبر 1933ء – 28 جنوری 2011ء) کا پیدائشی نام “محمد مظفر الدین احمد صدیقی” تھا۔ وہ برطانوی ہندوستان کے شہر میرٹھ (یو۔ پی) میں صوفی شرف الدین احمدچشتی قادری سہروردی کے ہاں پیدا ہوئے۔ مظفروارثی کانام مظف رہے۔ فاتح۔ وہ دنیائے سخن کے کئی ملک فتح کرچکے ہیں اورفتح وظفرکایہ سلسلہ جاری ہے۔ ان کے مداحوں اورعقیدت مندوں کی تعدادگنناناممکن ہے۔ وہ پچھلے پچاس برسوں سے عروس ِ سخن کا بناؤ سنگھار کر رہے ہیں۔ لکھتے اس لیے نہیں کہ وہ ایک لکھاری ہیں بلکہ اس لیے کہ ان پرآنے والی نجانے کتنی نسلوں اورصدیوں کی راہ نمائی کاقرض ہے۔ احسان دانش نے کہاتھاکہ اگلازمانہ مظفر وارثی کاہے۔ آپ کااپناایک جداگانہ شعری نظام ہے جوآپ کو دیگر شعرا ممتاز کرتا ہے۔ علم وسخن اپنی ہرشکل،ہرصنف میں آپ کا اوڑھنا بچھونابلکہ آپ کے وجود کا حصہ ہیں۔

صاحب طرز شاعر مظفر وارثی نعتیہ منظر نامے کے اہم نعت گو شاعر ہیں۔ انہوں نے نعتیہ شاعری کو کیف و مستی کی نئی طرز سے روشناس کرایا جس میں لفظ وجد کرتے نظر آتے ہیں۔ نعت سے متعلقہ شاید ہی کوئی ایسی سماعت ہو جس نے ان کے مشہور کلام یا رحمتہ اللعالمین ‘‘ ’’کوئی تو ہے جو نظام ہستی ‘‘نہ سن رکھیں ہوں۔’’ مظفر وارثی‘‘ کو پرائیڈ آف پرفارمنس بھی ان کی نعتیہ خدمات کی وجہ سے ملا ۔مظفر وارثی کو رعشے کا مرض تھا۔ کافی عرصہ علیل رہنے کے بعد 28 جنوری 2011ء کو 77 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔

متعلقہ خبریں