سٹیٹ بینک ملازم کی 40 لاکھ تنخواہ ،سرکاری دفاتر اور گھروں کو 10 ارب مفت بجلی کاانکشاف

اسلام آباد(نیوزڈیسک) سینیٹر مشتاق احمد نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں سرکاری دفاتر اور رہائش گاہوں کو 10 ارب روپے کی سالانہ مفت بجلی ملتی ہے۔سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں شروع ہوا، جس میں بعد ازاں نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر بھی پہنچ گئیں۔ وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اسلام آباد میں سرکاری دفاتر اور رہائش گاہوں کو سالانہ 10 ارب روپے مالیت کی مفت بجلی فراہم ہوتی ہے، جس پر نگراں وزیر خزانہ نے جواب دیا کہ ہم تمام وزارتوں کے سیکرٹریوں کو مراسلہ ارسال کرتے ہیں کہ اس خرچ کو کنٹرول کیا جائے۔سینیٹر دنیش کمار نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اندھابانٹے ریوڑیاں ، مڑ مڑ اپنوں کو دے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے ایک ایک ملازم کی تنخواہ 40 لاکھ روپے تنخواہ ہے۔ سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ کون سا ایسا کام ہے کہ ان کی چالیس چالیس لاکھ تنخواہ ہے۔نگراں وزیر خزانہ نے جواب دیا کہ اسٹیٹ بینک نے پالیسی دی تھی کہ پنشن ختم ہونے کی صورت میں تنخواہ بڑھا ئی جائے گی۔ اسٹیٹ بینک کی پنشن کا بوجھ بڑھ رہا تھا تو یہ پالیسی لائی گئی۔ دنیا بھر میں سینٹرل بنک کا سیلری اسٹرکچر سب سے مختلف ہوتا ہے۔سینیٹر رضا ربانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف سنتے ہیں آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی،گیس کے نرح بڑھائے گئے تو دوسری جانب حکومت کی شاہ خرچیاں کم نہیں ہورہیں۔ ایلیٹ میں بھی اب کلاسز پیدا ہوگئی ہیں۔ ایلیٹ کی تنخواہیں اس حساب سے بڑھائی جارہی ہیں جس کا کوئی حساب نہیں۔ پاکستان کے عام آدمی کی تنخواہ 32 ہزار ہے، جس میں دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہے۔ ایلیٹ کلاس عام مزدور کو بھی 32 ہزار ماہانہ دینے کو تیار نہیں۔ اعلان تو کردیا لیکن اس پر عمل نہیں ہورہا۔