کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے،چیف جسٹس

اسلام آباد ( اے بی این نیوز   ) تاحیات ناہلی کیس کی سماعت کت دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیتے ہو ئے کہا کہ پاکستان میں اپنی غلطی پر معافی مانگنے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے،آرٹیکل 17 ہر شہری کا ایک بنیادی حق ہے،اگر بنیادی حق اور آئین کی دوسری شق میں تضاد ہو تو کس کو ترجیح دی جائے گی؟ عزیر بھنڈاری نے کہا میری نظر میں بنیادی حقوق پر مبنی آئینی شق کو ترجیح دی جائے گی، چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ فرض کریں تاحیات نااہلی کا فیصلہ نہ ہوتا تو کیا آرٹیکل 17 کی بنیاد پر ہم فیصلہ کر سکتے ہیں؟ ، عزیر بھنڈاری نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے میں آرٹیکل 17 پر بحث کی گئی ہےپارلیمان الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے نااہلی کی مدت کم کرنے کی مجاز نہیں تھی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شکر ہے آرٹیکل 62 ون ایف کی اہلیت کا معیار ججز کیلئے نہیں ہے، اگر ججز کیلئے ایسا معیار ہوتا تو کوئی بھی جج نہ بن سکتا،میں تو ڈر گیا ہوں شکر ہے پارلیمان نے یہ معیار ہمارے لئے مقرر نہیں کیا،جسٹس مسرت ہلالی نے ریماتسک دیئے کہ کیا نیب کے علاوہ کسی قانون میں سزا کیساتھ نااہلی ہوتی ہے؟ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ نیب کے علاوہ کسی قانون میں سزا کےساتھ نااہلی کا علم نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم دونوں ختم ہوگئے تو نااہلی کیسے ہوگی؟ عزیر بھنڈار نے کہا کہ نااہل کرنے کیلئے عدالت کو آئین کے دوسرے آرٹیکلز کا سہارا لینا ہوگا،عدالتی معاون عذیر بھنڈاری نے دلائل مکمل کر لیے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت انتخابات کیلئے کسی کے حقوق متاثر نہیں کرنا چاہتی، سماعت میں وقفہ کریں گے تاکہ ہمارے خلاف کوئی ڈیکلریشن نہ آ جائے، ہم ہوا میں باتیں کر رہے ہیں ، ایک سوال کا جواب دیں،ایک ڈیکلیریشن آنے کے بعد کوئی دوبارہ عدالت جا سکتا ہے؟ کیا کوئی جا کر کہہ سکتا ہے اب توبہ کر لی ڈیکلیئر کریں میں بہت اچھا مسلمان ہوں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایسا کوئی فیصلہ موجود ہے جس میں ایسا فیصلہ دیا گیا ہو؟ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں نے فیصل واوڈا کیس میں ایسا دیکھا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کسی کو سب سے زیادہ ڈسکشن دینا بہت خطرناک ہوتا ہے، میں توقع رکھتا تھا کہ آپ آئینی معاونت کریں گے، یہ نہیں ہو سکتا فیصل واوڈا ندامت دکھائے تو معاملہ عدالتی موڈ پر چلا جائے،عدالت کا موڈ ہو تو تاحیات نااہلی کرے موڈ ہو تو چھوڑ دے ایسا نہیں ہوتا،کسی وکیل نے ڈکٹیٹر کیخلاف کبھی بات نہیں کی،عزیر بھنڈاری نے کہا میں نے جتنا ڈکٹیٹر پر تنقید کی اتنی 18ویں ترمیم پر کی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ارکان پارلیمینٹ بیچاروں پر تو تنقید آسان ہے، عزیز بھنڈاری نے کہا میں بندوق والوں سے نہیں لڑ سکتا جنہیں ووٹ دیا ان سے ہی پوچھ سکتا ہوں، میں کہہ رہا ہوں ڈیکلیئریشن سوٹ فائل کرنے سے آسکتا ہے، میری یہ رائے ہے اسے آپ نے ماننا یا نہ ماننا ہے، عزیر بھنڈاری کا جسٹس منصور علی شاہ کے پرانے فیصلے کا حوالہ دیا جسٹس منصور علی شاہ کا مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ آج میرے پیچھے ہی کیوں پڑے ہیں؟ چیف جسٹسجھوٹ بولنے والا تاحیات نااہل اور بغاوت کرنے والا پانچ سال نااہل کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کی طرف کسی کا دیہان نہیں گیا، پارلیمنٹ نے یہ تر میم مرضی سے نہیں کیں ان پر تھوپی گئی ہیں،عذیربھنڈاری نے کہا اٹھارہویں ترمیم کسی نے تھوپی نہیں ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ سارے معاملے کا حل اسلام میں موجود ہے،قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ انسان کا رتبہ بہت بلند ہے،انسان برا نہیں اس کے اعمال برے ہوتے ہیں،کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے،62 ون ایف انسان کو برا کہہ رہا ہے،اگر کوئی شخص گناہ سے توبہ کر لے تو معافی مل سکتی ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم کو ریگولیٹ نہیں کیا جاسکتا صرف ڈکلیئریشن کو کیا جاسکتا ہے، فیصل صدیقی نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ ختم نہ ہونے کی صورت میں آئینی تشریح کے معاملے میں مسائل ہوں گے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون ساز خلا اس لیے چھوڑتے ہیں کہ بعد میں اس پر قانون بن سکے، اس بنیاد پر الیکشن ایکٹ کا سیکشن 232 ختم نہیں کیا جاسکتا،کیا آئین قتل کی سزا کا تعین بھی کرتا ہے؟ اگر قانون سازوں نے کوئی خلا چھوڑا ہے اسے کیسے پر کیا جائے گا؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر قانون ساز خلا پر نہیں کرتے تو عدالت بھی کرسکتی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر عدالت بھی تشریح کردے اور قانون سازی بھی ہو جائے کونسا عمل بالا ہوگا، فیصل صدیقی نے کہا کہ 62 ون ڈی اور ای میں تو تاحیات نااہلی کیلئے ڈیکلیریشن کی بھی ضرورت نہیں، نیز اس سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت کل 9 بجے تک ملتوی کردی۔