Your theme is not active, some feature may not work. Buy a valid license from stylothemes.com

عوامی صحت کے ایجنڈے کو پٹری سے اتارنے کیلئے مشروبات کی صنعت کی کوششوں پر اظہار تشویش

اسلام آباد(نیوزڈیسک)صحت عامہ کے ایجنڈے کو پٹری سے اتارنے کے لیے مشروبات کی صنعت کی کوششوں پر ماہرین صحت اور سول سوسائٹی کا اظہار تشویش۔ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، ماہرین صحت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے فنانس بل 2023-24 میں زیادہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگاکر میٹھے مشروبات کی کھپت کو کم کرنے کے عوامی صحت کے ایجنڈے کو پٹری سے اتارنے کے لیے مشروبات کی صنعت کی کوششوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ یہ بات پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن، ذیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستان، پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹک سوسائٹی کی صدر ڈاکٹر فائزہ، فیملی فزیشنز ایسوسی ایشن سے ڈاکٹر مظہر مرزا، اینڈ وکرونو لوجسٹ سوسائٹی کےصدر ڈاکٹر ابرارپناہ کے سینئیر وائس پریزیڈنٹ ڈاکٹر عبدلقیوم اعوان، وزارت صحت سے ڈاکٹر خواجہ مسعود، پاکستان کڈنی پیشنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن سے غلام عباس، اور سول سوسائٹی الائنس، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر خالد رندھاوہ، ہارٹ فائل سے ڈاکٹر صباء امجد، میڈیا کی طرف سے ذائد فاروق، علماء کے زیر اہتمام مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ میٹھے مشروبات (SSBs) پر ٹیکس لگانا موٹاپے، ذیابیطس اور دل کی بیماری میں تیزی سے ہونے والے اضافیکے خلاف ایک موثر،اور ثابت شدہ طریقہ ہے آج تک، کم از کم 105 ممالک، شہروں اور خطوں نے میٹھے مشروبات پر ایکسائز ٹیکس لگائے ہیں۔ثناء اللہ گھمن جنرل سیکرٹری پناہ نے کہا کہ ہمیں شدید خدشات ہیں کہ مشروبات کی صنعت موٹاپے، ٹائپ 2 ذیابیطس، کینسر، جگر اور گردے کی بیماریوں کو کم کرنے کےلیے حکومت کی کوششوں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور فنانس بل 2023-24 میں ٹیکس سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔پبلک ہیلتھ ایڈووکیٹ اور گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر کے کنسلٹنٹ منور حسین نے کہا کہ بہت سے ممالک کی طرف ہونے والے شواہد ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ میٹھے مشروبات پر ٹیکس میں اضافہ مشروبات کی صنعت کے دلائل کے برعکس،اجرت میں کمی، روزگار میں کمی یامعیشت پرکوئی منفی اثر نہیں ڈالتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ میٹھے مشروبات پر ٹیکس ان کے استعمال کوکم کرتے ہیں اور لوگوں کو صحتمند متبادل جیسے پانی اور بغیر میٹھا دودھ کا انتخاب کی طرف راغب کرتے ہیں۔صحت عامہ کے ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندے حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ چینی والے مشروبات سمیت تمام قسم کے میٹھے مشروبات کے استعمال کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی تجاویز واضح طور پر بتاتی ہیں کہ غیر کیلوری والی مٹھائیاں صحت کےلیے یکساں طور پر نقصان دہ ہیں اوراغیر متعدی امراض کےلیے بڑھتا ہو خطرہ ہیں۔ وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن نے پہلے ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو تمام میٹھے مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو 50 فیصد تک بڑھانے کی تجویز پیش کی ہے جس میں سوڈاس، انرجی ڈرنکس، جوس، پھلوں کےجوس، اسکواش، شربت، ذائقہ دار دودھ اور نان کیلورک سویٹنرز شامل ہیں۔پاکستان میں موٹاپے اور خوراک سے متعلق بیماریوں کی بڑھتی ہوئی شرح میں میٹھے مشروبات کے استعمال کا سب سے بڑا حصہ ہے، میٹھے مشروبات میں پائی جانے والی شکر کی مائع شکلیں خاص طور پر جسم کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ مائع شکر جسم کےلیے کم تسلی بخش ہوتی ہیں اور ان میں کوئی اضافی غذائیت نہیں ہوتی، جب ہم ان مشروبات کا استعمال کرتے ہیں تو ہمیں پیٹ بھرنے کا احساس نہیں ہوتا، اس لیے کل کیلوریز کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔فائزہ خان، صدر پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹکس سوسائٹی نے کہا تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ میٹھے مشروبات خوراک میں چینی کا سب سے بڑازریعہ ہیں، پاکستان دنیا بھر میں پہلا ملک بن گیا ہے جہاں 31 فیصد بالغ افراد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں، پاکستان میں ذیابیطس کے انتظام کی سالانہ لاگت 2.6 ارب امریکی ڈالر تک بڑھ گئی ہے۔میٹھے مشروبات پر ٹیکس لگانے جیسے شواہد پر مبنی اقدامات کے ذریعے اس طوفان کو روکنے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر عبدالباسط، جنرل سیکرٹری ذیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستان نے کہا اگر ہم ذیابیطس کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو یہ پورے ترقیاتی ایجنڈے کو پٹڑی سے اتاردے گا۔انہوں نے اپنے خدشات کا اظہارکرتے ہوئے کیا۔ پاکستان کڈنی پیشنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری غلام عباس نے کہا ذیابیطس کے تقریباً نصف مریضوں کو ان کے گردے میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور ہمیں ان میں سے بہت سے لوگوں کو ڈائیلاسز پر رکھنا پڑتا ہے،میٹھے مشروبات کا استعمال ملک کی صحت عامہ اور معیشت کے لیے سنگین خطرات کا باعث ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو اس کی کھپت کو کم کرنے کےلیے تمام اقدامات کرنے چاہئیں اور مشروبات کی صنعت کی طرف سےاپنے کارپوریٹ مفادات کے کسی بھی دباؤ کو مسترد کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر ابرار نے کہا کہ میٹھے مشروبات بہت سی بیماریوں کی بڑی وجہ ہیں اور اینڈوکرونولوجسٹ سوسائٹی ان پر ٹیکسز کا مطالبہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر خواجہ مسعود نے کہا کہ وزارت صحت ان مضر صحت مشروبات پر ٹیکس بڑھانے کی پہلے ہی تجویز پیش کر چکی ہے۔صحت عامہ کے حامیوں اورسول سوسائٹی کےنمائندوں نے پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل کی جانب سے 2021 میں کرائے گئے رائے عامہ کے نتائج کو بھی شیئر کیا تاکہ میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھانے کے لیے عوامی حمایت کااندازہ لگایاجا سکے ،2021 میں کیے گئے قومی رائے عامہ کے سروے کے مطابق، 78 فیصد بالغ پاکستانیوں نےحکومت کی حمایت کی کہمیٹھے مشروبات پر ٹیکس میں اضافہ کیا جائے تاکہ اس کی کھپت کو کم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ ہر 10 میں سے 8 بالغ افراد حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ میٹھے مشروبات کے استعمال کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ آخر میں ڈاکٹر عبدالقیوم اعوان نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔