مسلسل دُعائیں مانگنے کا ایک دِن

٭ …ایک غیرمعمولی اضطراب بھرا دن، 600 فٹ بلندی پر ہوا میں پھنسے ہوئے سات کم سن طالب علم اور ایک استاد 16 گھنٹے مسلسل بھوکے پیاسے ایک چیئرلفٹ میں پھنسے رہے جس کے دو رَسے ٹوٹ چکے تھے اور تیسرے کا کسی بھی وقت ٹوٹنے اور چیئرلفٹ کے 600 فٹ نیچے کھائی میں گرنے کا اندیشہ تھا۔ پوری قوم نے 16 گھنٹے مسلسل یہ دردناک منظر دیکھا مسلسل دعائیں مانگیں، فوج کے تین اور فضائیہ کے دو ہیلی کاپٹر آ چکے تھے، پوری کوشش کر رہے تھے کہ ٹوٹے رسوں والی چیئرلفٹ کے پاس پہنچ جائیں مگر شدید تیز ہوا چل رہی تھی، خود ہیلی کاپٹر کے پنکھوں کی ہوا کا دبائو اتنا تیز اور شدید ہوتا ہے کہ منوں وزنی ہیلی کاپٹر کو متعدد مسافروں سمیت اوپر ہوا میں لے جاتا ہے۔ فضا میں تیز ہوا اور خود ہیلی کاپٹر کی تیز ہوا کے باعث لفٹ چیئر ہلنے لگتی تھی اور تیسرے رسی (لوہے کی زنجیر) کے ٹوٹنے کا خطرہ تھا۔ ہیلی کاپٹر کو لفٹ چیئر کے اوپر بلندی پر لا کر نیچے رسہ لٹکا کر بچوں کو نکالا جا سکتا تھا مگر ایک اور مشکل پیش کہ چیئرلفٹ کے اوپر30 فٹ کی بلندی پر ایک تیسری تار (غالباً بجلی کی جا رہی تھی، جو ہیلی کاپٹر کے لئے خطرہ بن سکتی تھی۔
٭ …اس صورت حال نے ملک بھر میں شدید اضطراب پیدا کر دیا۔ کروڑوں کی ساری آبادی صبح سے رات گیارہ بجے تک بچوں کی زندگی بچ جانے کی دُعائوں میں مصروف ہو گئی۔ معروف ادیب خواتین سعدیہ قریشی، شگفتہ جاوید اور کچھ دوسری خواتین کے بارے میں پتہ چلا کہ سارا دن، جائےنمازوں پر سجدوں میں ان بچوں کی سلامتی کی خود دُعائیں مانگتی رہیں۔ مجھے پیغام بھیجے کہ پوری قوم سے دُعائیں مانگنے کی اپیل کریں۔ یہ خواتین ان بچوں کو ان کے ناموں کو نہیں جانتی تھیں مگر سعدیہ قریشی نے کمال کی بات کہی کہ بچے کوئی بھی ہوں، ماں کی مامتا ایک اور سب کے لئے سانجھی ہوتی ہے۔ ویسے باپ کی محبت بھی سب کے لئے یکساں ہوتی ہے، صرف نام بدلتے ہیں، محبت اور شفقت ایک ہی ہوتی ہے۔ میری اپنی سارا دن جو کیفیت گزری، اسے شائد الفاظ میں بیان نہ کر سکوں۔ 16 گھنٹے مسلسل لفٹ چیئر پر نظریں لگی رہیں اور مسلسل دُعائیں مانگتا رہا، یا خدا! ان معصوم بچوں کی زندگی بچا لے۔ سارا دن اسی درد ناک حالت میں گزرا۔ شام کے بعد ذرا سے آنکھ لگ گئی۔ ٹیلی ویژن چلتا رہا۔ اچانک ٹیلی ویژن پر آواز ابھری یا اللہ تیرا شکر ہے، آٹھوں افراد کو ریسکیو کر لیا گیا ہے۔! بے اختیار آنکھوں سے شکرانے کے آنسو اُمڈ پڑے۔ ٭ …ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ فوج نے مسلسل جدوجہد سے دو بچے ریسکیو کر لئے تھے۔ پھر اندھیرا ہو گیا، ہیلی کاپٹر ممکن نہ ہے تو زمینی کارروائی کا فیصلہ ہوا۔سوات سے کمانڈوز آ چکے تھے، شمالی علاقوں سے ایسے افراد بلائے گئے جو رسوں سے لٹک کر آر یا پار آتے ہیں۔ کمانڈوز فوج کے جنرل آفیسر کمانڈنگ بھی سارا دن موقع پر موجود رہے۔ پنجاب اور پختونخوا کی حکومتوں نے ہر طرح کا تعاون پیش کیا۔ شُکر صَد شکر کہ خداوند رحیم و رحمان نے پوری قوم کی دُعائیں قبول کر لیں! ٭ …اب کچھ عام خبروں کی باتیں: گزشتہ رات کینیڈا سے محترم طارق انوار کا فون آیا کہ شاہ جی! کالم میں بہت مایوس کن خبریں ہوتی ہیں، کبھی کوئی رونق افروز، امید افزا بات بھی لکھ دیا کریں! ٹھیک ہے، ضرور لکھوں گا! ابتدا میں صرف ادبی کالم ہوتے تھے، ادیبوں کی آپس میں چھیڑ چھاڑ اور دلچسپ شاعری! مگر کوئی شاعر یا ادیب اردگرد کے سیاسی حالات اور عوام کے دکھ درد سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ دنیا بھر کا بیشتر ادب انسانی حقوق کی پامالی اور غم و درد کے ذکر سے بھرا پڑا ہے۔ طارق انوار صاحب کی خواہش کے مطابق ایک پرانا لطیفہ یاد آیا کہ ایک افیمی نے دوسرے افیمی سے کہا کہ ’’اگر تم بوجھ لو، میری مُٹھی میں کیا چیز بند ہے تو ساری چیز تمہاری!‘‘ دوسرے نے کہا کہ جانتا ہوں، تمہاری مُٹھی میں ریلوے انجن بند ہے‘‘۔ پہلا بولا کہ ’’تم نے دیکھ لیا ہو گا؟‘‘ میں اس لطیفہ کے بعد دوسرا لطیفہ لکھنا چاہتا تھا مگر نظر ایک خبر پر جا پڑی اس کی بڑی سی سرخی چیخ چنگھاڑ رہی تھی کہ ایک ٹھیکیدار نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں ایک سرکاری رہائش گاہ کی آرائش کا 14 لاکھ61 ہزار769 روپے کا ٹینڈر منظور کرایا اور ایک کروڑ 39 لاکھ چھ ہزار252 روپے وصول کر لئے! اتنا بڑا گھپلا کیسے ہوا؟ ظاہر ہے متعدد تجوریاں بھر گئی ہوں گی! طبیعت پر بوجھ پڑا، تو دوسری خبر ابھر آئی کہ بجلی والوں کی قیامتیں ابھی کم نہیں ہوئیں۔ جولائی کے بلوں میں فی یونٹ دو روپے سات پیسے اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس پر صارفین پر 35 ارب روپے کا مزید بوجھ پڑ گیا ہے، جو پہلے ہی شدید ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ پاکستان میں اس پر واویلا ہونا ہی ہے۔ آزاد کشمیر میں، جہاں سے بجلی آتی ہے، تقریباً ہر شہر میں احتجاجی ریلیاں شروع ہو گئی ہیں۔ ہجیرا میں مظاہرین نے بِل پھاڑ دیئے اور نئی قیمت دینے سے انکار کر دیا۔ ’کوٹلی‘، ’کھوئی رٹہ‘ اور دوسرے شہروں میں بجلی کے میٹر کاٹے جانے پر ہنگامے ہو رہے ہیں، ریاست میں نئی حکومت کے آنے پر گمان گزرا تھا کہ ریاستی عوام کو کچھ ریلیف ملے گا، مگر وہی بات کہ ’’گنڈا سنگھ اینڈ پریم سنگھ، وَن اینڈ دی سیم (Same) تِھنگ!!‘‘ ٭ …اور سنیں، آج امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ کو جیل میں بھیجا جا رہا ہے۔ اس پر سابق انتخابات ہارنے پر مخالف فریق پر حملہ کرانے اور انتخابی نتائج تبدیل کرنے کی فرد جرم عائد ہو چکی ہے۔ ٭ …جنوبی وزیرستان: دہشت گردوں اور فوج کے درمیان فائرنگ سے چار دہشت گرد ہلاک ایک زخمی اور چھ فوجی جوان شہید ہو گئے۔ ٭ …صدر کے غیر دستخط شدہ، واپس بھیجے جانے والے بل ابھی تک قانون نہیں بن سکے۔ پی ٹی آئی کا وکیل علی ظفر!! ٭ …گزشتہ کالم میں رانی پور کے ایک پیر کے بارے میں سینکڑوں جوان غریب عورتوں اور بچیوں کو اپنے ’حرم‘ میں رکھنے کے بارے میں کچھ شائع شدہ حقائق پیش کئے تھے۔ پیروں کے اس غول بیابانی کے ایک عیاش رکن اسد شاہ کے بارے میں ایک کم سن 10 سالہ، بچی فاطمہ کو وحشیانہ سلوک کے بعد قتل کرنے اور کسی پوسٹ مارٹم کے بغیر خاموشی سے دفنا دینے کا انکشاف ہوا۔ اسد شاہ ( لکھتے ہوئے شرم آتی ہے) کے خلاف گزشتہ روز رانی پور میں عام شہریوں نے مظاہرہ کیا۔ ریلی نکالی، ملک کے سب سے بڑے وکالتی ادارہ پاکستان بار کونسل نے مظلوم فاطمہ کے قاتل کو سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ٭ …وفاقی کابینہ نے قتل کے کیس میں دیّت (قتل کا ہرجانہ) کی رقم 67 لاکھ، 57 ہزار902 روپے مقرر کی ہے۔ ٭ …آج کل وزیراعظموں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ تھائی لینڈ میں سابق وزیراعظم ’’تھاکسن شِینا واترا‘‘ بیرون وطن 15 سال کی جلاوطنی کاٹ کر واپس تھائی لینڈ پہنچا تو ہوائی اڈے سے ہی جیل پہنچا دیا گیا۔ اسے 15 سال قبل 2008ء میں بدعنوانی کے الزام میں فوج نے برطرف کردیا تھا۔ عجیب بات ہے کہ اکثر ملکوں کے وزرائے اعظم بے بسی کے انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ بھارت کی وزیراعظم اندراگاندھی، اس کا بیٹا راجیو گاندھی (فائرنگ) ترکی کا وزیراعظم عدنان مندریس (پھانسی) ایران کا وزیراعظم محمد مصدق (جیل میں انتقال)، پاکستان لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو، برطانیہ کا وزیراعظم ’سپنیرپر سیوال‘‘ (انقلاب فرانس کے وقت قتل) 1986ء میں سویڈن کا وزیراعظم اولوف پالمے، کانگو کا وزیراعظم لومبا! لمبی فہرست ہے۔ قارئین کرام، سنا ہے پاکستان کا ایک نااہل قرار دیا جانے والا وزیراعظم آج کل لندن میں جلاوطن ہے۔ آپ اس کا نام جانتے ہیں؟ ٭ …ن لیگ کے لئے خوش خبری: نیب نے مریم نواز کی ضمانت کی منسوخی کی درخواست واپس لے لی۔ عدالت نے کیس ختم کر دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ مریم نواز کی ضمانت منسوخی کی درخواست نیب نے ہی عمران خان کے دورمیں دائر کی تھی۔ مریم اپنے والد نوازشریف کی طرح تقریباً سات سال قید اور سات ارب جرمانے کی سزا یافتہ ہے۔ اسے عدالت سے ضمانت ملی تھی، اس کی ’نیب‘ نے مخالفت کی تھی اور اس کی منسوخی کی درخواست کی تھی اب ہوا کا رُخ بدل چکا ہے۔ نیب خود کو غلط ادارہ ثابت کر رہی ہے۔ ٭ … الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے دو ٹوک بات کی ہے کہ نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات 9 ماہ، مئی جون، سے پہلے نہیں ہو سکیں گے۔ میں بھی ایک عرصے سے یہی لکھ رہا ہوں۔ فروری مارچ میں بھی نہیں ہو سکتے!