نئے انتخابات،مولانا کے خواب اور میاں نواز شریف

یہ ان دنوں کی بات ہے جب پشاور کے اس طرف ایک شہر میں علمائے دیوبند کا ایمان افروز اجتماع ہوا غالبا ًدیوبند مدرسہ کا سوسالہ جشن تھا ،عوام و خواص کی بڑی حاضری دیکھ کر جمعیت کے رہنما ترنگ میں آگئے اور فیس بک پر شور اٹھ کھڑا ہوا کہ خیبر پختونخواہ کے اگلے وزیر اعلیٰ مولانا کے فرزند ارجمند اسد محمود ہوں گے۔احقر نے ڈرتے ڈرتے فیس بک پر ہی لکھ دیا کہ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں،پھر جوطوفان اٹھا الامان الحفیظ۔گالی گلوچ اور قتل کی دھمکیوں تک معاملہ پہنچ گیا ،وہ رات میں نے کانٹوں پر ٹہلتے گزاری ۔وہ خواب چکنا چور ہوا ،پورا خیبر پختونخواہ مولانا کے ہاتھ سے نکل گیا ،مگر تہی دست جمعیت علمائے اسلام نے حوصلے نہیں ہارے اور اب اس سے بڑا ایک خواب مولانا نے آنکھوں میں سجا لیا ہے ، دل میں بسا لیا ہے اور جمعیت کے کارکن پھولے نہیں سماء رہے کہ ملک کے اگلے صدر مملکت مولانا ہوں گے اور خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ ان کے فرزند دل پسند ہوں گے۔ میں پھر وہی کہنے پر مجبور ہوں کہ خواب دیکھنے پرکوئی پابندی نہیں اور نہ ہی خواب آنکھوں کے محتاج ہوتے ہیں۔اللہ کرے مولانا کی کوئی تو امید بر آئے ،کسی خواب کی تو تعبیر مل جائے ،ہم بھی دیکھیں وہ کس انقلاب کا موجب بنتے ہیں ۔
پاکستان کو اور اسلام کو ان سے کیا تقویت ملتی ہے کہ پی ڈی ایم کے ساتھ تو وہ اقتدار کی رسہ کشی ہی میں منہمک رہے یا اس کوشش میں کہ اپنوں کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں اور اپنے گم شدہ ووٹ بنک کا کھوج لگاسکیں جو ابھی بھی ان کی رسائی سے خارج از امکان ہے ،مگر ہمارے ملک کی ساری سیاست اور سیاستدان ’’رنگ ماسٹر‘‘ کے تابع ہیں اس کے حضور تو اب سرتابی کا بھی کوئی راستہ نہیں رہا۔مولانا جو ہماری سیاست کے ہر رنگ میں ڈھل جانے کی ہر ادا سے واقف ہیں ،انہیں آئین و قانون کی پاسداری سے بھی کچھ غرض نہیں وہ بساط سیاست پر ہر چال چلنے کا ہنر جا نتے ہیں ،وہ پل بھر میں نفرتوں کے طوفان سے نمٹ لینے کی حکمت سے آشنا ہیں ،انہیں خبر ہے پی پی پی کو کیسے چت کرنا ہے اور مسلم لیگ (ن) کو کون سا کندھا دینا ہے ۔بلکہ وہ تو یہ تک جانتے ہیں کہ ’’رنگ ماسٹر‘‘ کے چرنے کس انداز میں چھونے ہیں۔ کاش وہ سپوکن انگلش کی عمدہ صلاحیت رکھتے ہوتے تو وہ امریکہ کو رام کر لینے میں کامیاب ہوجاتے اور امریکیوں کے دل میں ویسے ہی جگہ بنا لیتے جیسے عمران خان نے امریکہ ہی نہیں پورے مغرب کو اپنی خوبصورت انگلش سے اپنا گرویدہ بنایا ہوا ہے یہی نہیں اپنی نئی نسل کو بھی اسی سحر کے ذریعے اپنا شیدا بنایا ہوا ہے ۔اب جبکہ حکمران عوام کی لاٹھی سے بچنے کے لئے انتخابات کا ڈھونگ رچانے کی دہائیاں دے رہے ہیں مگر اندر سے ڈرے اور سہمے ہوئے بھی ہیں کہ عوام کے غیظ واغضب کی زد میں نہ آجائیں جس کا سو فیصد امکان ہے جسے’’رنگ ماسٹر‘‘ بھی نہیں روک سکے گا ،رہے میاں نواز شریف جنہیں ان کا چھوٹا چوسے ہوئے گنے کی دعوت پر دعوت دیئے جاتا ہے مگر بڑے میاں صاحب جو دیکھ رہے ہیں وہ چھوٹے کے وجدان و شعور سے بالا ہے ۔ویسے میاں نواز شریف صاحب کو ایک کوشش کر لینی چاہیئے شائد ’’رنگ ماسٹر‘‘ ان کی جرات پر خوش ہوکر انہیں پھر سے سرکس کے شیر کے طور پر پذیرائی بخش دے اور وہ چوتھی بار ملک کے وزیر اعظم بن جائیں ۔ اب سارا کھیل ’’رنگ ماسٹر‘‘پر ہی تو موقوف ہے کہ سفید کو سیاہ کردے یا سیاہ کو سفید ،یہ اس کے دائیں ہاتھ کا کام ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ کپتان اس کے اعصاب پر ایسے سوار ہے جیسے کسی ناگہانی کا خوف ۔ جنہوں نے پریس کانفرنس کے ذریعے جان کی امان اور اپنے پورے خاندان کی عافیت کی رسید حاصل کرلی ان کے منحوس سایوں سے تو قوم بچ گئی ،اگر عدالتیں آن پر مہربان بھی ہوگئیں تو عوام کی عدالت کے فیصلے سے نہیں بچ سکیں گے۔ جہاں تک میاں نواز شریف کی بات ہے تو انہوں نے اپنے کشکول میں ایسے سکے ہی رکھے ہوئے جو اپنے دماغ سے سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ،ان کے گرد دولت شاہ کے چوہے ہیں جو اپنی موٹی ٹوپیوں سے بوجھ ہی سے پناہ پائیں کے تو کوئی فیصلہ کر پائیں گے ،سو موجاں ماریں میاں صاحب اور ان کی ہونہار بیٹی جو ہر بار اپنے سیاسی فہم و دانش سے پیارے ابا کو جیل کی کوٹھڑی میں پہنچاتی ہیں ،پھر اس کی سیاست کے ستارے رم جھم کرنے لگتے ہیں ،وہ اپنی تجوری میں رکھی وڈیوز کے سر پر خوب شہرت کماتی ہیں ،یہی اس کا سیاسی اثاثہ ہے جسے ایک مدت سے گلے لگائے پھرتی ہیں اللہ اس کے حال پر رحم فرمائے ۔آمین