اسلام آباد(اے بی این نیوز)ڈیمز کے حق میں مہم گمراہ کن تھی، جسے ڈیم لابیوں نے بغیر مستند تحقیق کے آگے بڑھایا؛ نتیجتاً اربوں روپے میگا ڈیمز پر لگا دیے گئے۔
ڈیمز سیلاب سے مکمل تحفظ فراہم نہیں کرتے؛ چھوٹے سیلاب کو روک سکتے ہیں لیکن بڑے سیلاب کو مزید خطرناک بنا دیتے ہیں کیونکہ یہ دریا کے بہاؤ کو تنگ کرتے ہیں۔گاد (سیلٹ) جمع ہونے سے ڈیم پچاس سال کے اندر ہی غیر مؤثر ہوجاتے ہیں۔ اس کے متبادل موجود ہیں؛ پاکستان کے زیرِ زمین آبی ذخائر، دلدلی علاقے اور دریائی میدان تقریباً 500 MAF پانی محفوظ کر سکتے ہیں۔ڈیمز کی تعمیر کو ٹھیکیداروں اور قرضوں سے جڑی مفاد پرستانہ کوشش کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
سیلاب سے کھیتوں تک؛ ڈیم پاکستان کے مستقبل کے محافظ
ڈیم صرف سیلاب روکنے کے لیے نہیں؛ ان کا اصل مقصد پانی کو ذخیرہ اور منظم کرنا ہے تاکہ خشک مہینوں میں زراعت، پینے کے پانی اور پن بجلی کے لیے دستیاب ہو۔اگر بڑے ذخائر نہ ہوں تو پاکستان سال بھر کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا کیونکہ بارشیں اور دریائی پانی کا بہاؤ انتہائی موسمی ہے۔زیرِ زمین پانی لامحدود نہیں؛ پنجاب اور سندھ میں اس کا حد سے زیادہ استعمال پہلے ہی کمی، کھاراپن اور آلودگی پیدا کر رہا ہے۔
ڈیم دراصل آبی ذخائر کو دوبارہ بھرنے میں مدد کرتے ہیں، اس لیے زیرِ زمین پانی کے تحفظ کے لیے سطحی ذخیرہ ناگزیر ہے۔صرف “قدرتی بہاؤ” پر انحصار حقیقت پسندانہ نہیں؛ پاکستان کی آبادی دریائی میدانوں میں یورپ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، اور حکومتی نظم و ضبط بھی کمزور ہے۔
گاد کا مسئلہ انجینئرنگ کے جدید طریقوں سے قابو پایا جا سکتا ہے جیسے فَلَشنگ، بائی پاس ٹنلز، کھدائی اور واٹر شیڈ مینجمنٹ؛ انہی اقدامات سے تربیلا اور منگلا کی عمر میں اضافہ ہوا ہے۔بڑے آبی ذخائر سے بننے والی پن بجلی پاکستان کی توانائی کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے، یہ صاف، ملکی اور دیرپا بجلی فراہم کرتی ہے جو شمسی اور ہوا سے حاصل توانائی کے ساتھ مل کر چلتی ہے۔ڈیم بیس لوڈ اور طلب کے وقت بجلی کی فراہمی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے میں کلیدی ہے۔
بہترین راستہ ایک مربوط حکمتِ عملی ہے: ڈیمز اسٹریٹجک ذخیرہ اور توانائی کے لیے، جبکہ زیرِ زمین پانی اور قدرتی نظام لچک اور ماحولیاتی توازن کے لیے؛ ڈیمز کو مکمل طور پر رد کرنا پاکستان کے پانی کے بحران میں غیر عملی ہے۔
نتیجہ
پاکستان کے وجودی آبی بحران سے نمٹنے کے لیے بڑے اسٹریٹجک ذخائر لازمی ہیں تاکہ پانی کے بہاؤ کو منظم کیا جا سکے، پانی کی فراہمی یقینی ہو، توانائی پیدا ہو اور زیرِ زمین ذخائر دوبارہ بھر سکیں۔ قدرتی نظام قیمتی معاون ہیں، لیکن وہ ڈیمز کے اس کردار کو نہیں بدل سکتے جو ذخیرہ، نظم و ضبط اور بھروسہ مندی کے ذریعے صرف ڈیمز ہی فراہم کرتے ہیں، خاص طور پر ایسے ملک میں جو مون سون پر انحصار کرتا ہو اور پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار ہو۔
مزید پڑھیں: نامور بھارتی اداکارہ نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگادی