شاہ نعمت اللہ ولی کی پاکستان کے حوالے سے حیران کن پیشگوئیاں

اسلام آباد(نیوزڈیسک)800 سال قبل، ایک صوفی بزرگ، نعمت اللہ ولی برصغیر سے گھومتے کشمیر آئے اور یہیں اُن کی وفات بھی ہوئی۔ نعمت اللہ ولی نے مستقبل کے بارے میں بہت سی پیشگوئیاں کیں جو اپنے اپنے وقتوں میں درست بھی ثابت ہوئی۔ نعمت اللہ ولی نے مغلیہ دور کے علاوہ بر صغیر کی تقسیم سے لے کر پاکستان کی تخلیق اور ارتقا کے بارے میں بھی بہت سی باتیں کہی ہیں جو سننے والوں کے لیے بہت دلچسپ ہیں۔ ایران سے دہلی پر نادر شاہ کا حملہ اور ہندوستان کی فتح؛ یہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔ مغلوں کے بارے میں انھوں نے کہا تھا: 300 سال بعد مغل کہیں نہیں پائے جائیں گے۔ انھوں نے بتایا تھا کہ ہندوستان کے گورنر اور بادشاہ زیادہ تر وقت افیون کے نشے میں اور عادی رہیں گے۔ اس دوران انگریز تاجروں کی شکل میں ہندوستان میں داخل ہوں گے اور آخر کار پورے برصغیر کو فتح کر لیں گے۔برصغیر پر برطانوی راج 100 سال بعد ختم ہو جائے گا۔ اس پیشین گوئی پر ہندوستان کے وائسرائے لارڈ کرزن نے سنت کی کتاب پر پابندی لگا دی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ انگریزوں کو اس کے بعد ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ 100 سال کی حکمرانی اگرچہ انگریز فوجی 200 سال سے زیادہ برصغیر میں رہے لیکن وہ 100 سال سے زیادہ حکومت نہیں کرتے۔پاکستان اور ہندوستان کے درمیان آخری معرکہ (غزوہ ہند) کے متعلق شاہ صاحب نے خاص طور پر چترال، نانگا پربت، گلگت، چین اور تبت کے نام بتائے جو اس وقت میدان جنگ بنیں گے جب کفار مسلمانوں پر حملہ کریں گے۔ اللہ کے فضل سے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی۔ اس جنگ میں اہل کابل بھی کفار کو مارنے کے لیے نکلیں گے اور کفار کا اس طرح قتل عام کریں گے کہ دریائے اٹک ان کے خون سے تین گنا بھر جائے گا۔ کافر آخر کار مسلمانوں سے اپنی جان کی بھیک مانگتے ہیں۔ یہ واقعہ دو عیدوں کے درمیان (شاید عیدالاضحی کے بعد اور عیدالفطر سے پہلے ہو گا۔ یہ معرکہ 6 ماہ تک جاری رہے گا۔ فتح حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کا بہت زیادہ خون بہایا اور قربانیاں درج کی جائیں گی۔ اس کے پیش نظر پورے پنجاب کو مسلمانوں کے قبضے میں لے لیا جائے گا جس میں لاہور، کشمیر اور دریائے گنگا اور یمنا کے درمیان کی سرزمین، پورے صوبہ اتر پردیش اور بجنور شہر شامل ہیں۔ جس کے لیے انہوں نے لفظ “شمسیرِ علی” استعمال کیا، وہ اس خطے کے غیر مسلموں کو ان کے تصور سے بھی زیادہ شکست دے گا اور 40 سال تک پورے برصغیر میں اسلام کا غلبہ رہے گا۔حالات ہمیں جس نہج پر لے کر جا رہے ہیں، یہ بات تو یقینی ہے کہ ہم غزوہِ ہند کے بہت قریب ہیں جس کے بارے میں ہمیں حدیث مبارکہ سے بھی حقیقی دلائل ملتے ہیں۔ لیکن دیکھنا باقی ہے کہ نعمت اللہ ولی کی پیشگوئیاں مزید کس حد تک درست ثابت ہوں گی۔
پاکستان ، گلت بلتستان ، بھارت ، افغانستان کے حوالے سےشاہ نعمت اللہ ولی کے فارسی میں چند اشعار قارئین کی نظر ہیں
بے تاج بادشاہاں شاہی کنند ناداں
اجراء کنند فرماں فی الجملہ مہملانہ​
ترجمہ: ہند و پاک پر بے تاج لوگ بادشاہی کریں گے، جبکہ نادان حکام احمقانہ احکام جاری کریں گے۔

از رشوتِ تساہل دانستہ از تغافل
تاویل یاب باشند احکامِ خسروانہ​
ترجمہ: یہ رشوت لے کر سُستی کریں گے۔ جان بوجھ کر غفلت کریں گے۔ اپنے شاہی احکامات کے لئے بے سروپا جواز پیش کریں گے۔
عالم ز علم نالاں ، دانا ز فہم گریاں
ناداں بہ رقص عریاں مصروف والہانہ​
ترجمہ: (حقیقی) عالم اپنے علم پر گریہ و زاری کریں گے۔ دانا لوگ اپنی فہم و فراست کا رونا روئیں گے جبکہ ناداں لوگ عریاں ناچ گانوں میں دیوانہ وار مصروف ہوں گے۔

شفقت بہ سرد مہری، تعظیم در دلیری
تبدیل گشتہ باشد از فتنہء زمانہ​
ترجمہ: شفقت سرد مہری میں اور تعظیم دلیری میں تبدیل ہو جائیگی۔ یہ زمانہ میں فتنہ کے سبب سے ہو گا۔

ہمشیر با برادر، پسران ہم با مادر
نیزہم پدر بہ دختر مجرم بہ عاشقانہ​
ترجمہ: بہن بھائی کے ساتھ، بیٹے ماؤں کے ساتھ اور باپ بیٹی کے ساتھ عاشقانہ فعل کے مجرم ہوں گے۔
تشریح: حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے اس شعر میں ”مجرم بہ عاشقانہ“ کے الفاظ استعمال کر کے جنسی سیاہ کاری کی قبیح ترین حالت کو قدرے مہذب زبان میں بیان کرنے کی سعی فرمائی ہے جو اخلاقیات کے ارفع و اعلیٰ مراتب پر فائز صوفیاء اور اولیاء کا وطیرہ ہے۔

از امت محمدؐ سرزد دشوند بیحد
افعال مجرمانہ، اعمال عاصیانہ​
ترجمہ: سرکارِ دو عالمﷺ کی امت سے بکثرت مجرمانہ افعال اور عاصیانہ اعمال سرزد ہوں گے۔

فسق و فجور ہر سُو رائج شود بہ ہر کُو
مادر بہ دختر خود سازد بسے بہانہ​
ترجمہ: ہر طرف اور ہر گلی کوچہ میں فسق و فجور عام ہو جائے گا۔ماں اپنی بیٹی کے ساتھ بہت بہانہ سازی کرے گی۔

حلت رود سراسر حرمت رود سراسر
عصمت رود برابر از جبر مغویانہ​
ترجمہ: حلال جاتا رہے گا، حرام کی تمیز جاتی رہے گی۔ عورتوں کی عصمت جابرانہ اغوائیگی سے جاتی رہے گی۔

بے مہر گی سر آید پردہ داری آید
عصمت فروش باطن معصوم ظاہرانہ​
ترجمہ: نفرت پیدا ہو گی، بے پردگی آجائیگی۔ عورتیں بے پردہ ہوں گی۔ بظاہر معصوم لیکن اندر سے عصمت فروش ہوں گی۔

دختر فروش باشند عصمت فروش باشند
مردانِ سفلہ طینت با وضع زاہدانہ​
ترجمہ: اکثر لوگ دختر فروشی اور عصمت فروشی کریں گے۔ بدکردار لوگ اپنی ظاہری وضع قطع زاہدوں جیسی رکھیں گے۔

بے شرم و بے حیائی درمرد ماں فزاید
مادر بہ دختر خود، خود را کند میزانہ​
ترجمہ: لوگوں میں بے شرمی اور بے حیائی زیادہ ہو جائیگی، ماں اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے آپ کا موازنہ کرے گی۔ گویا ماں حسن و جمال اور طرز و انداز میں خود کو اپنی بیٹی سے کم نہیں سمجھے گی۔

کذب و ریاء و غیبت ، فسق و فجور بیحد
قتل و زنیٰ و غلام ہر جا شوند عیانہ​
ترجمہ: جھوٹ اور ریا کاری، غیبت اور فسق و فجور کی زیادتی ہو گی۔ قتل ، زنا اور اغلام بازی ہر جگہ عام ہو جائے گی۔

اب حضرت نعمت اللہ شاہ ولی اپنی پیشنگوئی کا رخ زمانے کے جاہل اور ریا کار علماء اور گمراہ مفتیان کی طرف موڑتے ہوئے ان کے تن بدن سے ظاہری زیب و زینت کا طرہ اور جبہ قبہ ہٹا کر انہیں اپنے اصلی رنگ و روپ میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
آں مفتیانِ گمرہ فتو ے دہند بیجا
در حق بیان شرع سازند بسے بہانہ​
ترجمہ: وہ گمراہ مُفتی غلط فتوے دیا کریں گے، شریعت کے حق بیان میں بہت بہانہ سازی کریں گے۔

فاسق کند بزرگی بر قوم از سترگی
پس خانہ اش بزرگی خواہد شود ویرانہ​
ترجمہ: فاسق لوگ بڑی صفائی سے اپنی قوم پر بُزرگی کریں گے۔ پھر ان بُزرگوں کے گھروں میں ویرانی آئے گی۔

احکام دیں اسلام چوں شمع گشتہ خاموش
عالم جہول گردد جاہل بہ عالمانہ​
ترجمہ: دینِ اسلام کے احکام شمع کی مانند خاموش ہو جائیں گے۔ عالم جاہل ہو جائیگا۔ جاہل گویا عالم بن جائے گا۔

آں عالمانِ عالم گردند ہمچوں ظالم
نا شستہ روئے خود را بر سر نہند عمامہ​
ترجمہ: وہ دنیا کے عالم ظالموں کی طرح ہو جائیں گے۔ اپنے نہ دھوئے ہوئے چہرے کو سر پر دستار فضیلت رکھ کر سجائیں گے۔

زینت دہند خود را با طرہ و جبہ
گئو سالہ سامری را باشد درون جامہ​
ترجمہ: اپنے آپ کو طرہ اور جبہ قبا کے ذریعے عزت دیں گے۔ گویا سامری جادوگر کے بچھڑے کو لباس کے اندر چھپا لیں گے۔

زاہد مطیع شیطاں ، عالم عدو رحمٰن
عابد بعید ایشاں ، درویش با ریانہ​
ترجمہ: زاہد شیطان کی اطاعت کرنے والے اور عالم رحمان سے دشمنی کرنے والے ہونگے، جبکہ عابد عبادت سے دور اور درویش ریا کاری کرنے والے ہوں گے۔
رسم و رواج ترسا ، رائج شود بہ ہر جا
بدعت رواج گردد نیز سنت غائبانہ​
ترجمہ: عیسائیوں جیسا رسم و رواج ہر جگہ رائج ہو گا۔ بدعت رواج پا جائیگی۔سنت پیغمبری غائب ہو گی۔
بعد آں شود چوں شورش در ملک ہند پیدا
فتنہ فساد برپا بر ارضِ مشرکانہ​
ترجمہ: اس کے بعد ہندوستان کے ملک میں ایک شورش ظاہر ہو گی۔ مشرکانہ زمین پر فتنہ و فساد برپا ہو گا۔

درحین خلفشارے قومے کہ بت پرستاں
بر کلمہ گویاں جابر از قہر ہندوانہ​
ترجمہ: اس خلفشار کے وقت بت پرست قوم کلمہ گو مسلمانوں پر اپنے ہندوانہ قہر و غضب کے ذریعے جابر ہوں گے۔

بہر صیانت خود از سمت کج شمالی
آید برائے فتح امداد غائبانہ​
ترجمہ: اپنی مدد کیلئے شمال مشرق کی طرف سے فتح حاصل کرنے کیلئے غائبانہ امداد آئے گی ۔

آلات حرب و لشکر درکار جنگ ماہر
باشد سہیم مومن بے حد و بیکرانہ​
ترجمہ: جنگی ہتھیار اور جنگی کاروائی کا ماہر لشکر آئیگا، جس سے مسلمانوں کو زبردست اور بے حساب تقویت پہنچے گی۔

عثمان و عرب و فارس ہم مومنانِ اوسط
از جذبہء اعانت آیند والہانہ​
ترجمہ: ترکی ، عرب، ایران اور مشرق وسطیٰ والے امداد کے جذبہ سے دیوانہ وار آئیں گے۔

اعراب نیز آیند است کوہ و دشت و ہاموں
سیلاب آتشیں شد از ہر طرف روانہ​
ترجمہ: نیز پہاڑوں، بیابانوں اور صحراؤں سے اعراب بھی آئیں گے۔ آگ والا سیلاب ہر طرف رواں دواں ہو گا۔

چترال، ناگا پربت، باسین ، ملک گلگت
پس ملک ہائے تبت گیر نار جنگ آنہ​
ترجمہ: چترال، نانگا پربت، چین کے ساتھ گلگت کا علاقہ مل کر تبت کا علاقہ میدان جنگ بنے گا۔

یکجا چوں عثمان ہم چینیاں و ایراں
فتح کنند ایناں کُل ہند غازیانہ​
ترجمہ: ترکی ، چین اور ایران والے باہم یکجا ہو جائیں گے۔ یہ سب تمام ہندوستان کو غازیانہ طور پر فتح کر لیں گے۔

غلبہ کنند ہمچوں مورو ملخ شباشب
حقا کہ قوم مسلم گردند فاتحانہ​
ترجمہ: یہ چیونٹیوں اور مکڑیوں کی طرح راتوں رات غلبہ حاصل کر لیں گے۔ میں قسم کھاتا ہوں اللہ تعالیٰ کی کہ مسلمان قوم فاتح ہو گی۔

کابل خروج سازد در قتل اہل کفار
کفار چپ و راست سازند بسے بہانہ​
ترجمہ: اہل کابل بھی کافروں کو قتل کرنے کیلئے نکل آئیں گے، کافر لوگ دائیں بائیں بہانہ سازی کریں گے۔

از غازیان سرحد لرزد زمیں چو مرقد
بہر حصول مقصد آیند والہانہ​
ترجمہ: سرحد کے غازیوں سے زمین مرقد کی طرح لرزے گی۔ وہ مقصد کے حصول کے لئے دیوانہ وار آئیں گے۔
تشریح: اوپر کے دو اشعار سرحد کے غازیوں اور افغانستان کے مجاہدوں کا کفار کے خلاف زوردار جہاد اور دیوانہ وار یلغار ظاہر کرتے ہیں۔ (اللہ اکبر)

از خاص و عام آیند جمع تمام گردند
درکار آں فزایند صد گونہ غم افزانہ​
ترجمہ: عام و خاص سب کے سب لوگ جمع ہو جائیں گے۔اس کام میں سینکڑوں قسم کے غم کی زیادتی ہو گی۔
تشریح: غازیانہ، دلیرانہ اور فاتحانہ انداز سے کفار کے خلاف جہاد میں کامیابی کی نشانیوں کے باوجود ایک نامعلوم ”غم“ کے لئے تمام مسلمانوں کا باہم جمع ہو جانا تشویشناک نظر آتا ہے۔
بعد از فریضہء حج پیش از نماز فطرہ
از دست رفتہ گیرند از ضبطِ غاصبانہ​
ترجمہ: فریضہء حج کے بعد اور عید الفطر کی نماز سے پہلے ہاتھ سے نکلے ہوئے علاقہ کو حاصل کر لیں گے جو انہوں نے غاصبانہ ضبط کیا ہوا تھا۔

رودِ اٹک نہ سہ بار از خوں اہل کفار
پر مے شود بہ یکبار جریان جاریانہ​
ترجمہ: دریائے اٹک (دریائے سندھ) کافروں کے خون سے تین مرتبہ بھر کر جاری ہو گا۔
تشریح: حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی کا ہر شعر جہاں ایک الگ باب کی حیثیت رکھتا ہے، وہاں مستقبل کے بارے ان کا یہ شعر جس میں صاف طور پر دریائے اٹک (دریائے سندھ) کا نام لے کر اسے تین مرتبہ کفار کے خون سے بھر کر جاری ہونے کی پیشنگوئی کی گئی ہے ، مسلمانوں اور کفار کے درمیان ایک انتہائی خونریز جنگ کو ظاہر کرتا ہے جس میں اگلے شعر کے تناظر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گی۔لیکن اس شعر کی یہ تشریح اس وقت تک تشنہ لب ہے جب تک جغرافیائی اور واقعاتی لحاظ سے اس اہم نکتہ پر غور نہ کیا جائے کہ بھلا کفار کے خلاف مذکورہ خونریز جنگ آخر پشاور سے صرف ٤٥میل دور دریائے اٹک تک کیسے آ پہنچے گی جبکہ دریائے سندھ کے مغرب میں صرف صوبہ سرحد(پختونخواہ) ، قبائلی علاقہ، افغانستان اور چند آزاد جمہوری ریاستیں واقع ہیں جو مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ تو کیا اٹک کے کنارے کفار سے مزاحمت صرف یہی مغرب کی طرف سے آنے والے مسلمان کریں گے؟ دوسرا انتہائی تشویشناک اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اگر مغرب کی طرف سے کفار کا آنا بعید از قیاس ہے تو پھرکفار دریائے اٹک تک پاکستان کے مشرق یا شمال مشرق کی جانب سے کن راستوں یا علاقوں سے گزر کر پہنچیں گے؟ کیونکہ مقامِ کارزار آخر دریائے اٹک ہی بتایا گیا ہے۔