اپیلٹ ٹربیونل نے اعظم سواتی کو سینیٹ الیکشن لڑنے کیلئے اہل قرار دے دیا

پشاور(نیوزڈیسک)پشاور کے اپیلٹ ٹربیونل نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی کو سینیٹ الیکشن کے لیے اہل قرار دے دیا جبکہ اپیلٹ ٹربیونل نے رہنما پاکستان تحریک انصاف مراد سعید کے سینیٹ انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اعظم سواتی کی جانب سے دائر کی گئی اپیل پر سماعت الیکشن ٹربیونل کے جج جسٹس شکیل احمد نے کی، اعظم سواتی، ان کے وکیل بیرسٹر وقار اور شکایت کنندہ کیپٹن(ر) صفدر ٹربیونل میں پیش ہوئے۔

دورانِ سماعت جسٹس شکیل احمد نے اعظم سواتی کے وکیل سے سوال کیا کہ کس گراؤنڈ پر ان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوئے ہیں؟ جس پر اعظم سواتی کے وکیل بیرسٹر وقار احمد نے بتایا کہ اعتراض کنندہ 3 ہیں، 2 ایسے ہیں جو الیکشن میں امیدوار نہیں۔

وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایک اعتراض یہ ہے کہ اعظم سواتی نے اپنے خلاف درج مقدمات کی تفصیل فراہم نہیں کی اور این اے 15 میں عام انتخابات میں بھی ا نہوں نے یہ فراہم نہیں کی تھی۔

وکیل کے مطابق عام انتخابات کے بعد اعظم سواتی نے ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر کیں ، جس پر انہیں مقدمات کی تفصیل فراہم کی گئی، جس کے بعد ہم نے سینیٹ الیکشن کے کاغذات میں تفصیل فراہم کی ہے۔

اعظم سواتی کے وکیل نے کہا کہ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر اعتراض لگایا گیا ہے کہ آپ اس کے لیے اہل نہیں ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ آپ کا تجربہ نہیں ہے جب کہ درخواست گزار 18 سال سینیٹ کے ممبر رہے ہیں، 2 بار ٹیکنوکریٹ اور ایک بار جنرل نشست پر۔ 2006 سے 2012 تک ٹیکنوکریٹ کے لیے اہل تھے اور 2024 میں اہل نہیں ہیں؟۔ درخواست گزار سینیٹ میں مختلف کمیٹیوں کے ممبر بھی رہے، ججز کمیٹی کے رکن بھی رہے ہیں۔

جسٹس شکیل احمد نے اعترض کنندہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ ٹیکنوکریٹ کے لیے 16 سال کی تعلیم اور 20 سال کا تجربہ لازمی ہے، یہ سینیٹ کے ممبر رہے ہیں اور مختلف کمیٹیوں کے ممبر بھی رہے ہیں، انہوں نے قانون سازی میں حصہ بھی لیا ہے، اس پر آپ کیا کہتے ہیں؟

وکیلِ اعتراض کنندہ نے عدالت کو بتایا کہ سینیٹ کے ممبر رہے ہیں تو یہ کمیٹیوں کے ممبر بھی رہے ہوں گے، جو بھی ممبر ہوا ہے وہ کمیٹیوں کا بھی ممبر ہوتا ہے، جب ایک شخص غلط بیانی کرتا ہے تو اس پر نااہل قرار دیا جاتا ہے، ان کے خلاف 2 کیسز درج تھے، اس میں ضمانت پر تھے اس کا بھی ذکر نہیں کیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ غلط بیانی ایک شخص کس لیے کرتا ہے، وہ کوئی فائدہ لینا چاہتا ہے، اگر یہ حلف میں کہتے کہ میرے خلاف کوئی کیسز نہیں ہیں تو پھر بات ہوتی، وکیل اعتراض کنندہ نے عدالت کو بتایا کہ انہیں جن مقدمات کا پتا تھا وہ بھی مینشن نہیں کیے گئے، یہ غلط بیانی کی ہے۔

بعد ازاں الیکشن ٹریبونل نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے اعظم سواتی کی جنرل نشست کے لئے اپیل منظور کرلی اور انہیں سینیٹ الیکشن میں جنرل نشست کے لئے اہل قرار دے دیا۔

جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ ٹیکنوکریٹ کی نشست کے لئے اپیل پر بعد میں فیصلہ جاری کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ ریٹرنگ آفیسر نے اعظم سواتی کے جنرل اور ٹیکنوکریٹ نشست پر کاغذات مسترد کئے تھے۔

مراد سعید
پشاور کی اپیلٹ ٹربیونل نے رہنما پاکستان تحریک انصاف مراد سعید کے سینیٹ انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

پشاور ہائیکورٹ میں قائم اپیلٹ ٹربیونل کے جج جسٹس شکیل احمد نے مراد سعید کے سینیٹ انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر مراد سعید کے وکیل نے کہا کہ مراد سعید کے اکاؤنٹ میں موجود رقم کو سرمایہ کاری کہا گیا جو غلط ہے، جس پر وکیل شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ ریٹرننگ افسر نے 6 اعتراضات کو ریکارڈ کیا ہے۔

وکیل مراد سعید نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مراد سعید پر اعتراض ہے کہ وہ مفرور ہیں ، مفرور ہونے پر کاغذات مسترد نہیں ہوسکتے ہیں یہ ہائی کورٹ کے فیصلے موجود ہے۔

جسٹس شکیل احمد نے دریافت کیا کہ کیا وہ اب بھی مفرور ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ جی ابھی بھی مفرور ہیں، جج نے ریمارکس دیے کہ پھر تو ان کو ضمانت لینی چاہیے۔

وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مراد سعید کی جان کو خطرہ ہے اس لیے وہ سامنے نہیں آرہے، امید ہے سینیٹر بننے کے بعد تھوڑی آسانی پیدا ہوجائے گی، مراد سعید کے خلاف مقدمات کی تفصیل کے لیے بھی کیس دائر کرچکے ہیں، مراد سعید کے کاغذات پر جعلی دستخط کا اعتراض بھی لگایا گیا ہے، ہمارے پاس ویڈیو موجود ہے کہ کاغذات پر مراد سعید نے خود دستخط کیے ہیں، ہم نے ریٹرننگ افسر کو ویڈیو دیکھائی بھی تھی۔

اس موقع پر وکیل شکایت کنندہ نے کہا کہ مراد سعید نے قومی اسمبلی کے لیے کاغذات میں 9 مقدمات کا ذکر کیا مگر سینیٹ انتخابات میں ان مقدمات کا کوئی ذکر ہی نہیں، سینیٹ انتخابات میں مزید 10 مقدمات کا ذکر کیا ہے لیکن پہلے والوں کا نہیں، علم میں ہونے کے باوجود مراد سعید نے کاغذات میں تفصیل نہیں دی، مراد سعید نے دو مرتبہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی اور جرمانہ بھی جمع نہیں کیا۔

اس پر وکیل مراد سعید نے بتایا کہ انہوں نے جرمانہ جمع کیا ہے، ہمارے پاس اصلی رسید بھی موجود ہیں۔

وکیل شکایت کنندہ نے مزید کہا کہ کاغذات میں بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم کو ظاہر نہیں کیا گیا۔

جسٹس شکیل احمد نے وکیل مراد سعید سے استفسار کیا کہ کاغذات میں یہ کیوں ظاہر نہیں کیا؟ وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے فارم میں نہیں لکھا لیکن کاغذات کے ساتھ ایف بی آر کی رپورٹ لگائی ہے۔

اس پر وکیل لیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ اپیل بھی مراد سعید نے جمع نہیں کی، اگر مسئلہ نہیں تو مراد سعید کو لے کر آئیں، کاغذات بھی فوری منظور ہوجائیں گے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت ضمانت دے دیں ابھی عدالت میں پیش کرکے لاتا ہوں۔

بعد ازاں ایپلیٹ ٹربینل نے مراد سعید کی کاغذات نامزمدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

یاد رہے کہ 12 مارچ کو سینیٹ انتخابات کے لیے مراد سعید کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے تھے۔