الیکشن کمیشن کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا،چیف جسٹس

اسلام آباد(محمد بشارت راجہ) الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اور کوئی بھی ادارہ اس کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتا۔سپریم کورٹ میں بلے کا نشان بحال کرنے کے کیس میں چیف جسٹس کے ریمارکس ،کہا لاہور ہائیکورٹ میں درخواست زیر التوا رکھ کے پشاورکیسے پہنچ گئے؟جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ چھوٹے سے گمنام گاؤں میں انتخابات کیوں کرائے؟بلے کا نشان بحال کرنے کے حوالے سے کیس ، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی ، الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ تحریک انصاف کے گزشتہ پارٹی انتخابات 2017 میں ہوئے تھے، پارٹی آئین کے مطابق تحریک انصاف 2022 میں پارٹی انتخابات کرانے کی پابند تھی، الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے مطابق انتخابات نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا۔ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آئین میں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا طریقہ کار کہاں درج ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پہلے جمال انصاری بعد میں نیاز اللہ نیازی پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر بنے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے باقی ارکان کون تھے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ کوئی اور ممبر تعینات نہیں تھا پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ کوئی ادارہ اپنے فیصلے کے دفاع میں اپیل نہیں کر سکتا۔ متاثرہ فریق اپیل کر سکتا ہے الیکشن کمیشن نہیں، کیا ڈسٹرکٹ جج خود اپنا فیصلہ کالعدم ہونے کی خلاف اپیل کر سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ جج عدلیہ کے ماتحت ہوتا ہے الیکشن کمیشن الگ آئینی ادارہ ہے، کیا الیکشن کمیشن اپنے خلاف فیصلہ آنے پر سرنڈر کر دے؟؟ چیف جسٹس نے حامد علی خان سے استفسار کیا کہ آپ نے اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکال دیا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کون ہیں؟ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ پہلے اسد عمر تھے اب عمر ایوب سیکرٹری جنرل ہیں۔ چیف فائز عیسیٰ نے دوبارہ سوال پوچھا کہ کیا اسد عمر نے پی ٹی آئی چھوڑ دی ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسد عمر تحریک انصاف چھوڑ چکے ہیں، اسد عمر سیکرٹری جنرل کیسے بنے الیکشن کمیشن ریکارڈ پر کچھ نہیں ہےچیف جسٹس نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے انتخابات کہاں ہوئے تھے؟ کسی ہوٹل میں ہوئے یا کسی دفتر یا گھر میں؟ جس پر تحریک انصاف کے وکلا نے جواب دیا کہ چمکنی کے گراؤنڈ میں ہوئے تھے۔ چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی نے مؤقف اپنایا کہ واٹس ایپ پر لوگوں کو بتایا تھا اور لوگ پہنچے بھی تھے، ویڈیو موجود ہے عدالت میں چلا لیں، جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ویڈیوز باہر جا کر چلا لیں ہم دستاویزات پر کیس چلاتے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کو لاہور ہائی کورٹ کیوں پسند نہیں آئی؟ جس پر تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے کہا کہ پشاور کے علاوہ کہیں بھی سکیورٹی نہیں مل رہی تھی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن لڑنے کا بنیادی حق ہر شہری اور جماعت کا ہے، الیکشن لڑنے کا بنیادی حق چھین لیں تو آمریت قومی اور نجی سطح پر بھی آ جائے گی،جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ کیاکیا دیگر جماعتوں کے آئین کو بھی اتنی باریکی سے دیکھا جاتا ہے؟ باقی جماعتوں میں بھی بلامقابلہ انتخاب ہوتا ہے یا صرف پی ٹی آئی میں ہوا ہے؟ ڈی جی لاء منے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ ریکارڈ دیکھ کر جواب دینگے،آج پارٹی انتخابات نہ کرانے پر 13 سیاسی جماعتوں کو ڈی لسٹ کیا ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات بہت وزن رکھتی ہے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی پی ٹی آئی کو نوٹس کیا گیا تھا۔جس پر چیف جسٹس بولے من پسند عدالتوں سے رجوع کرنے سے سسٹم خراب ہوتا ہے ۔ بعدازاں حکمنامے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں آگاہ کیا گیا کہ عام انتخابات کی وجہ سے معاملہ فوری سماعت کا ہے، ہمارا ویک اینڈ برباد کرنے کا شکریہ۔مقدمے کی مزید سماعت کل صبح 10بجے ہو گی۔