غربت اور غلامی، خاتمہ کیسے ہو؟

ملتان یونیورسٹی سے بی اے میں گولڈ میڈل حاصل کیا، پولیٹیکل اکنامکس میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوایجز سے پولیٹیکل اکانومی میں ماسٹر اور ایم بی اے کیا، 2014 ء میں دبئی کی ایک ملٹی نیشنل فنانس ٹریڈنگ کمپنی میں منیجر ٹریڈ کی جاب شروع کی۔ اسی دوران ’’غربت اور غلامی، خاتمہ کیسے ہو‘‘کے عنوان سے کتاب لکھی۔ یہ کتاب 2017ء میں شائع ہوئی جو پاکستان کی پانچ مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کی جا چکی ہے۔ وہ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف مارکیٹ اکانومی کے ریسرچ سکالر رہے، پاکستان اور انٹرنیشنل اخبارات اور رسائل میں انکے ریسرچ پیپرز شائع ہوئے۔ 2019 ء میں وہ دبئی سے انگلینڈ چلے گئے جہاں انہوں نے یونیورسٹی آف ایسکس میں اکنامکس میں پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کروا رکھا ہے۔ امید ہے 2024 ء میں انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی مل جائے گی۔ آج کل وہ اسی یونیورسٹی میں لیکچر دیتے ہیں اور انگلینڈ کے تھنک ٹینکس بھی ان کی خدمات حاصل کر رہے ہیں جس سے انہیں ماہانہ کم و بیش 5ہزار پونڈ انکم حاصل ہوتی ہے جو لگ بھگ 18لاکھ 30ہرار پاکستانی روپے بنتے ہیں!

یہ ذیشان ہاشم ہیں جن کا تعلق ذہانت کی زرخیز زمین ملتان سے ہے، وہ اپنے دبئی کے قیام کے دوران میرے اچھے دوست تھے مگر ان کے برطانیہ جانے کے بعد ان سے میرا رابطہ کٹ گیا۔ آج اتفاقاً ایک جگہ ان کے ایک رشتہ دار خواجہ محمد رضوان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے وٹس ایپ پر میرا رابطہ کروا دیا جس سے ان کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملا۔ ذیشان ہاشم 40سال سے کم عمر ہیں، ابھی انہوں نے شادی نہیں کی اور وہ ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد پاکستان سے غربت (حقیقی)اور غلامی (نظریاتی)کا خاتمہ کرنا ہے۔ میں پاکستان سے ’’ذہانت کے اخراج‘‘ کے بارے میں اکثر فکرمند رہتا ہوں۔ ہر سال دنیا کے 150 مختلف ممالک میں کام کرنے والے 11 ملین سے زیادہ سمندر پار پاکستانی جس میں ذیشان ہاشم جیسے جینیس افراد بھی شامل ہیں تقریباً 30بلین ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں، لیکن اس کے بدلے میں سمندر پار پاکستانیوں کو حکومت پاکستان جو سہولیات دیتی ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کے لئے بیرونِ ملک مقیم محنتی اور ذہین شہری ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی شکایات میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے جس کو پنجاب میں بیرونِ ممالک مقیم پاکستانیوں کی شکایات کے ازالے کے لیے کام کرنے والا ادارہ پنجاب اوورسیز پاکستانیز کمیشن بھی تسلیم کرتا ہے۔ اس کمیشن کو سالانہ 6000 سے زائد درخواستیں موصول ہوتی ہیں جن میں سے زیادہ تر درخواستیں (تقریباً) 99 فیصدجائیدادوں پر قبضے کے بارے میں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں لینڈ مافیا بہت فعال اور طاقتور ہے جس کے سامنے حکومتیں بھی بے بس نظر آتی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2014 ء سے جون 2021ء تک 7برس کے دوران 23ہزار 800شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 14ہزار 755شکایات کا ازالہ کیا گیا جبکہ لگ بھگ 9000شکایات ابھی بھی کمیشن کے پاس موجود ہیں جو بوجوہ زیرِ التوا ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی زمینوں اور گھروں پر قبضے کے لیے جعل سازی سے نقلی کاغذات تیار کیے جاتے ہیں اور زمینوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ اوورسیز پاکستانی ملک سے باہر اس ساری صورتِ حال سے لاعلم ہوتے ہیں۔ دوسری جانب کوئی عام شہری نقلی کاغذات پر جائیداد خرید لیتا ہے اور پھر دونوں ایسے افراد آپس میں قانونی معاملات میں الجھ جاتے ہیں جنہیں قبضہ گروہ نے دھوکا دیا ہوتا ہے۔ پاکستان سے سمندر پار جانے والے لوگوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک غربت اور روزگار کی تلاش میں باہر جاتے ہیں اور دوسرے ذیشان ہاشم جیسے وہ طالب علم باہر جاتے ہیں جو بیرون ملک میں اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں یا جنہیں امیر اور ترقی یافتہ ممالک مثلاً امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ مفت تعلیمی وظائف دیتے ہیں۔ ان مغربی ممالک میں سٹوڈنٹ ویزے پر عموما وہ طالب علم جاتے ہیں جو اعلیٰ درجے کے ذہین و فطین ہوتے ہیں اور جو ہماری عقل و دانش کے حوالے سے ہمارے لئے کریم کا درجہ رکھتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ طلبا اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس نہیں لوٹتے ہیں اور ان کی ذہانت سے وہی ملک فائدہ اٹھاتے ہیں جہاں وہ تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ اگر پاکستان ان کی ذہانت کا صحیح معاوضہ اور مراعات دے تو اس سے پاکستان کو کماحقہ طور پر دگنا فائدہ ہو گا۔ یہ ایک تجویز ہے کہ اوور سیز پاکستانیز اور خصوصی طور پر ان جیسے جینئس، ایماندار اور اہل طلبا کو اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر نمائندگی دی جائے۔ انسان کی اصل طاقت اس کے عقائد اور نظریات نہیں ہیں بلکہ اس کے سوچنے کی لامحدود صلاحیت ہے۔ ہمارے ہاں پائی جانے والی فکر اور سوچ کے جمود کو جھنجھوڑنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی کا انحصار قابل اور ذہین لوگوں کی بنائی گئی ’’لانگ ٹرم‘‘پالیسیوں پر عمل درآمد سے ممکن ہوتا ہے۔ ایک تو اس سے جہاں ملک سے ذہانت کے اخراج کو روکا جا سکے گا وہاں اس نمائندگی سے ان سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کا ازالہ براہ راست ممکن بنایا جا سکے گا۔ غربت اور غلامی کا خاتمہ اکانومی کی لانگ ٹرم پالیسیوں پر عمل درآمد سے ہی ہو گا۔ ذیشان ہاشم جیسے دانشوروں سے یورپ فائدہ اٹھا سکتا ہے تو انہیں پاکستان واپس لا کر ہم کیوں نہیں