ایک شہر آشوب ’’پولیس اور عدل‘‘ کی ہم آغوشیوں کا

٭اسلام آباد: کم سن بچی پر تشدد کرنے والی سول جج کی بیوی سومیہ کے خلاف مقدمہ! ہائی کورٹ نے ضمانت منظور کر لی، بچی کے جسم پر 15 زخم، دونوں ٹانگیں ایک بازو شکستہ، دماغ میں زخم میں کیڑے، ملزمہ کی لاعلمی! O خواجہ آصف، ’’میں نے جو کچھ کہا (پی ٹی آئی کی خواتین کو اخلاق باختہ!! گند کی باقیات!) اس پر معذرت نہیں کروں گا‘‘ O 9 مئی کے واقعات پر27 جولائی کوپی ٹی آئی کی خاتون رکن کے گھر پر چھاپہ، گرفتاری O ملک کے بیشتر حصوں میں طوفانی بارشیں، سکھر اور دوسرے شہرڈوب گئے مزید بارشوں کی پیش گوئیO بھارت:ممبئی میں تاریخ کی بدترین بارشO کراچی: مختلف علاقوں میں 14 دنوں سے پانی بندO سوات کے نوجوانوں کی دنیا بھر میں مقبولیت، چند روز میں بھارت، چین، میکسیکو اور چلی کی لڑکیوں کی سوات کے نوجوانوں سے شادیاںO پرویزالٰہی کے گھرانے کے تمام مردوں و خواتین کے اثاثوں کی تحقیقات شروعO پاکستان کی ہاکی ٹیم بھارت روانہOکولمبو پاکستان کرکٹ ٹیم کی حیرت انگیز کارکردگی، سنچریاں، اعلیٰ بولنگ، سری لنکا کی ٹیم کو اننگز کی شکستO آزاد کشمیر، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں و پنشن میں اضافہO اسلام آباد: پولی کلینک کے ملازم کی نجی کمپنی کو 60 لاکھ کی خریداری کا ٹھیکہ!O انڈونیشیا، مرمت کے لئے دو سال سے کھڑے پی آئی اے کے دو بڑے طیاروں کے اخراجات، عدم ادائیگی پر،70 لاکھ ڈالر کا ہرجانہO قومی اسمبلی، کورم کے بغیر ایک گھنٹے میں 29 بل منظورO بھارت: عدم اعتماد کی تحریک نظر انداز، دو ماہ گزرنے کے باوجود منی پور کے فسادات پر وزیراعظم مودی کی خاموشی برقرارO بھارتی وزیرداخلہ امیت شاہ کا رسمی بیانO اسلام آباد: سیشن عدالت، توشہ خانہ کیس کی 37 سماعتیں، عمران خان کی صرف 3 حاضریاں!
٭6 ماہ قبل سرگودھا کے ایک غریب شخص نے10ہزار روپے ماہوار پر اپنی 12 سالہ بچی کو اسلام آباد کے سول جج عاصم حفیظ کےگھر ملازم رکھا۔ جج کی بیوی سومیہ نے اسلام آباد کی روایات کے مطابق بچی پر وہی مظالم توڑنے شروع کئے جو 2017ء میں ایک ایڈیشنل سیشن جج اور اس کی بیوی نے رضیہ نام کی 10 سالہ بچی پر توڑے تھے۔ میڈیا میں ان مظالم کاذکر نمایاں ہوا تو ایڈیشنل سیشن جج اور اس کی بیوی کو تین سال قید کی سزا ہو گئی۔ سپریم کورٹ نے سزا بحال رکھی۔ بچی سے روٹی جل گئی تھی اس پر سیشن جج کی بیوی نے اسے زدوکوب کیا۔ بچی جان بچانے کے لئے چھت پر بھاگی، بیوی اسے چھت سے گھسیٹتی ہوئی نیچے لائی، اسے زدوکوب کرتے ہوئے سر پر شیشے کی بوتل ماری، بچی نے ہاتھ آگے کیا تو ہاتھ شدید زخمی ہو گیا۔ اس ظالم عورت نے چھری مار دی۔ کسی طرح بات باہر نکلی، عدالت میں میاں بیوی نے بچی پر الزامات لگائے جو جھوٹ ثابت ہوئے۔ خاوند کو ایڈیشنل سیشن جج کے عہدہ سے برطرف کر دیاگیا اور میاں بیوی کو تین ماہ قید کی سزا سنا دی گئی۔ ٭موجودہ کیس ایک سول جج عاصم حفیظ کا ہے۔ اس کی بیوی سومیہ مبینہ طور پر6 ماہ سے معصوم بچی پر تشدد کر رہی تھی، اس پر وہ سارے ستم توڑے جو 6 سال قبل کم سن رضیہ پر توڑے گئے، مزید اضافہ کہ بچی کی ایک ٹانگ اور ایک بازو ٹوٹ گیا، سر پر ڈنڈا مارنے سے زخم ہو گئے ان میں کیڑے پڑ گئے، ایک دانت ٹوٹ گیا۔ حالت زیادہ خراب ہوئی تو اس کے والدین کو اطلاع دی گئی۔ والد سرگودھا سے آیا تو بچی ایک تاریک کمرے میں بند رو رہی تھی۔ والد نے اسلام آباد کے تھانے میں مقدمہ درج کرایا اوربچی کو سرگودھا ہسپتال میں لے گیا۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے بچی کی سخت بری حالت کے پیش نظر اسے لاہور کے جنرل ہسپتال میں بھیج دیا۔ میڈیا میں خبروں کی بناپر یہ واقعہ نمایاں ہوا۔ وزیراعلیٰ کےحکم سے بارہ سپیشلسٹ ڈاکٹروں کے بورڈ نے اس کا معائنہ کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بچی کی ٹانگیں اور ایک بازو ٹوٹا ہوا ہے، جسم پر 15 زخم ہیں۔ گلا دبانے کے نشانات بھی ہیں، ایک دانت ٹوٹا ہوا ہے۔ وہ چل پھر نہیں سکتی، سخت تکلیف کے عالم میں ہے، سر کے زخم سے کیڑے صاف کئے گئے ہیں۔ بچی کے بازو اور ٹانگوں پر دن میں دوبار پٹی تبدیل کی جاتی ہے۔ وہ ہوش میں آ چکی ہے، اس نے سول جج اور بیوی کے مظالم کی ہوش ربا داستان سنائی ہے! ٭اب’’انصاف‘ کی داستان سنئے! بچی 24 جولائی کو بازیاب ہوئی۔ تھانے میں سول جج اور بیوی کے خلاف مقدمے کی درخواست ٹال دی گئی۔ میڈیا میں شور مچا تو 25 جولائی کو کمزور سی ایف آئی آر درج کر لی گئی اس میں سول جج اور اس کی بیوی کا کوئی ذکر نہیں۔ سول جج نے میڈیا کو بتایا کہ بچی نے چند ماہ قبل گملوں کی مٹی کھا لی تھی (ظاہر ہے کھانا نہیں دیا ہو گا) اس سے اس کے جسم میں الرجی ہو گئی تھی اس کا علاج کرایا گیا مگر جسم خراب ہو گیا (ایک جج کا بیان!!!) جج کی اہلیہ کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دی گئی کہ وہ اسلام آباد کے تھانے میں پیش ہونا چاہتی ہے، اسے حفاظتی ضمانت دی جائے۔ یہ قانونی مسئلہ تھا، حفاظتی ضمانت عام بات ہے، ہائی کورٹ نے یکم اگست تک ضمانت منظور کر لی۔ اب یہ خاتون ’سومیہ‘ یکم اگست کو تھانے میں پیش ہو گی جہاں درج مقدمے میں اس کا نام ہی موجود نہیں۔ ظاہر ہے پولیس کیا کارروائی کرے گی؟ ہائی کورٹ میں اس عورت نے بیان دیا کہ اس نے بچی پر کوئی تشدد نہیں کیا اس پر غلط الزام لگایا جا رہا ہے۔ ہائی کورٹ چاہتی تو لاہور کے ہسپتال میں زیرعلاج بچی کا بیان اور اس کی میڈیکل رپورٹ کا معائنہ کیا جا سکتا تھا مگر جب کوئی ملزم ایسے واقعہ سے لاتعلقی اور بے گناہی ظاہر کرے تو ہائی کورٹ کے پاس صرف قانونی کارروائی رہ جاتی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سول جج کی بیوی نے ضمانت کی درخواست تو 28 جولائی کو دی، واقعہ 24 جولائی کو رپورٹ ہوا، ان پانچ دنوں میں پولیس نے سومیہ اور سول جج کی گرفتاری تو کجا اس سے کوئی تفتیش بھی نہ کی۔ محض اس لئے کہ ایک جج کا معاملہ تھا؟ استغفار! اِنّا لِلّٰہ واِنّا اِلیہ رَاجعون!! ٭تحریک انصاف کے سابق رہنما فیصل واوڈا نے غریب بچی کا مقدمہ لڑنے کا اعلان کیا ہے اور ’’عدل و انصاف‘‘ پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ ٭حاضرین کرام! آج کالم ایک ہی موضوع پر ختم ہو رہا ہے۔ میں 58 برس کی صحافت کے دوران یہی کچھ ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ ایسے بے شمار واقعات دیکھے ہیں جن میں ’پولیس اور عدل‘ ہم آغوش پائے گئے۔ بہت سے اذیت ناک معاملے، ’مشرق‘ اخبار نے ایک خاتون کے ساتھ زیادتی کی تفصیل اور تھانہ گوال منڈی میں درج ایف آئی آر کی نقل چھاپ دی۔ بااثر ملزموں نے تھانیدار سے سازباز کی۔ اسے بھاری رشوت دی، رات کے وقت ایک چھاپہ خانے کو کھلوا کر ایف آئی آر والے رجسٹر کے نئے صفحات چھپوائے گئے، نئی ایف آئی آر درج ہوئی اس میں بااثر افراد اور ادارے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ معمولی ہراسگی دکھائی گئی۔ اگلے روز اخبار میں شائع شدہ اصل ایف آئی آر والی خبر پر اخبار کے خلاف ’’جعلی ایف آئی آر‘‘ کا مقدمہ دائر کیا گیا۔ اخبار نے بااثر افراد کی بھاری رشوت لینے سے انکار کیا تھا اور سچ چھاپنے پر اصرار کیا تھا۔ اسے اس کے صلہ میں گیارہ ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا پڑا (1971ء میں گیارہ ہزار، آج کے لاکھوں روپے)۔ ٭ایک آدھ دوسری خبر: سٹیٹ بینک نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں پر 6 بنکوں کو39 کروڑ روپے جرمانہ کیا ہے۔ تفصیل یہ ہے: نیشنل بنک 14 کروڑ42 لاکھ روپے، بنک الفلاح 12 کروڑ52 لاکھ، میزان بنک 3 کروڑ80 لاکھ، الائیڈ بنک 2 کروڑ6 لاکھ60 ہزار روپے، پنجاب پراونشل کوآپریٹو بنک ایک کروڑ22 لاکھ، بنک الحبیب ایک کروڑ4 لاکھ20 ہزار روپے! ٭اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے ناقابل بیان سکینڈل کی تین ٹیمیں دو بڑے الزامات کی تفتیش کر رہی ہیں۔ ان میں لرزہ خیزانکشافات سامنے آئے ہیں۔ ایک ٹیم وزیراعلیٰ پنجاب کی تین وائس چانسلروں پر مشتمل ہے اس نے مختلف افراد سے طالبات کے ساتھ بدسلوکی کے علاوہ یونیورسٹی میں وسیع پیمانہ پر منشیات کی فروخت کی بھی تفتیش کی ہے۔ ایک ٹیم خود یونیورسٹی کے سینئر پروفیسروں پر مشتمل ہے اس میں دو خاتون پروفیسر طالبات سے ان الزامات کی ’گہری‘ تفتیش کر رہی ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بھی یونیورسٹی کے حکام کو طلب کر رکھا ہے۔ اس سکینڈل کا اہم کردار سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب تاحال روپوش ہے۔ اسے برطرف کیا جا چکا ہے۔ ان تحقیقات کا ایک انکشاف سامنے آیا ہے کہ یونیورسٹی کے اندر منشیات کی فروخت میں بعض ملازمین اور متعدد پروفیسروں کے بیٹے اور رشتہ دار بھی شامل ہیں!! استغفراللہ!!