باہمی احترام اور روا داری میں علما کا کردار

(گزشتہ سے پیوستہ) بسا اوقات فقہی دائروں اور سطحوں سے بالاتر ایسے ملّی مسائل سامنے آجاتے ہیں جن میں مشترکہ سوچ کو اپنانا لازمی ہو تا ہے۔ مثلاً پاکستان بننے کے بعد ہمیں دو بڑے مسائل درپیش آئے تھے جن کے لیے ہمیں اجتماعی فیصلہ کرنا تھا۔ ایک یہ کہ پاکستان کا نظام حکومت کیا ہوگا اور کسی فرد یا گروہ کو اقتدار سونپنے کی وجہ جواز کی ہوگی؟ اور دوسرا یہ کہ عقیدۂ ختم نبوت کے منکر قادیانی گروہ کی معاشرتی حیثیت کیا ہوگی؟ ہم نے ان دونوں مسائل کا فیصلہ اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ کیا اور طے کیا کہ پاکستان میں حکمرانی کا حق اسے حاصل ہوگا جسے عوام کا اعتماد حاصل ہوگا، جبکہ حکومت قرآن و سنت کی پابند ہوگی۔ اور قادیانیوں کے بارے میں ہم نے فیصلہ کیا کہ انہیں غیر مسلم اقلیت کے طور پر اسلامی ریاست میں معاشرتی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
اس مسئلہ کے ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا کہ آج کل عالمی مارکیٹ میں ’’حلال فوڈ‘: کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی حلال کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں فراہم کی جانے والی حلال خوراک کے ’’حلال‘‘ ہونے کی ضمانت فراہم کی جائے جو ظاہر ہے کہ مسلمان حکومتوں کی طرف سے ہی فراہم کی جا سکتی ہے۔ بعض ممالک میں حکومتی سطح پر ایسے ادارے موجود ہیں جو کسی فوڈ کے حلال ہونے کے لیے تسلی کرنے کے بعد ’’حلال فوڈ‘‘ کی اسٹیمپ لگا دیتے ہیں جس سے عالمی مارکیٹ میں یہ ضمانت میسر آجاتی ہے۔ پاکستان میں یہ مسئلہ ابھی غور و فکر کے مراحل میں ہے، دو سال قبل لاہور کے ایک ہوٹل میں بین الاقوامی سطح کا سیمینار منعقد ہوا جس میں مجھے بھی شرکت اور گفتگو کا موقع ملا، اس کی جس نشست میں مجھے معروضات پیش کرنا تھیں اس کی صدارت اتفاق سے برادر مسلم ملک انڈونیشیا کے سفیر محترم کر رہے تھے۔ میں نے اپنی گفتگو میں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ہمیں بین الاقوامی مارکیٹ میں حلال فوڈ کی گارنٹی فراہم کرنے سے پہلے آپس میں حلال و حرام کا کوئی مشترکہ فارمولا طے کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ انڈونیشیا اور ملائشیا میں غالب اکثریت شوافع کی ہے جن کے نزدیک سمندر کا ہر جانور حلال ہے اور اتفاق سے شوافع کی بہت بڑی اکثریت جزیروں میں آباد ہے جہاں چاروں طرف سمندر ہی سمندر ہے۔ جبکہ احناف کے نزدیک مچھلی کی اقسام کے علاوہ سمندر کی کوئی جاندار مخلوق حلال نہیں ہے۔ ہم دونوں جب حلال فوڈ کی گارنٹی لے کر بین الاقوامی مارکیٹ میں جا رہے ہیں تو ہمیں آپس میں اس حوالہ سے ’’حلال و حرام‘‘ کے کسی متفقہ موقف پر آنا ہوگا ورنہ عالمی مارکیٹ میں مذاق بن جائے گا کہ یہ پاکستانی حلال ہے اور یہ انڈونیشین حلال ہے، ہمیں ایسی صورت حال پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ میری اس گزارش سے مجلس میں اتفاق کیا گیا اور ان معاملات میں باہمی اتفاق رائے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔ گزارش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں کم از کم اہل السنۃ کے دائرہ کے فقہی مذاہب یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور ظاہری فقہی مکاتب فکر سے واقفیت اور باہمی تبادلہ خیالات اور استفادہ کا ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ میں اس بات کا پوری طرح قائل بلکہ داعی ہوں کہ کسی ملک میں جس فقہی مذہب کے پیروکاروں کی اکثریت ہے وہاں اسی فقہ کا عملی نفاذ ہو۔ حنفی اکثریت کے ملک میں حنفی فقہ کو قانون کی بنیاد ہونا چاہیے، شافعی اکثریت کے ملک میں فقہ شافعی کا نفاذ ہی صحیح بات ہے اور مالکی اکثریت کے ملک کو اپنے دستور و قانون میں مالکی فقہ سے ہی استفادہ کرنا چاہیے، لیکن جہاں مشترکہ ماحول ہو وہاں اشتراک عمل کی قابل عمل فقہی صورتیں ضرور نکالنی چاہئیں اور بین الاقوامی فورم پر ہمیں مل جل کر باہمی مفاہمت اور ہم آہنگی کے ساتھ جانا چاہیے۔ عالمی اداروں، بین الاقوامی رائے عامہ اور مشترکہ علمی و فکری چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور ظاہری سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے سے استفادہ کی ایسی صورتیں ضرور نکالنی چاہئیں جو آج کی دنیا میں اسلام کے جامع اور صحیح تعارف کے لیے ضروری ہیں۔ میری طالب علمانہ رائے میں اس کے لیے زیادہ مناسب بات یہ ہوگی کہ اجتماعی اور مشاورتی اجتہاد کو فروغ دیا جائے۔ یہ فقہ حنفی کی اساس اور روایت بھی ہے کہ حضرت امام اعظمؒ نے شخصی فقہ کی بجائے مشاورتی اور اجتماعی فقہ کی روایت کا آغاز کیا اور ہمارے دو بڑے فقہی ذخیروں ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ اور ’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘‘ کی بنیاد بھی اجتماعی مشاورت پر ہے۔ اس لیے ہم اگر اجتماعی اور مشاورتی فقہی ماحول دوبارہ بحال کر لیں تو نہ صرف حضرت امام اعظمؒ کی روایت زندہ ہو جائے گی بلکہ آج کے بہت سے مسائل کے حل کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔