(گزشتہ سے پیوستہ) یہ ہے وہ اصل چیزجس نے عہدحاضر کو کامیاب سازوسامان کے باوجودمکمل طورپرناکام کردیاہے۔ اب جب کہ حالات وواقعات نے ثابت کردیاہے کہ آدمی کبھی خودکچھ نہیں کرسکااورجب بھی کچھ ہواہے وہ اس نے اللہ سے کروایا ہے توپھرکیوں نہ اللہ سے تمام مسائل کوحل کرانے کی راہ پکڑی جائے۔اس کے لئے پہلی صورت تویہ ہے کہ آدمی جوعلم کوعمل کا محتاج سمجھتاہے اورپھراس عمل کواللہ کا درجہ دے کراس کی پرستش شروع کردیتاہے،اس سے تائب ہوکراللہ کو روح عمل اوراصل فعال قوت سمجھ کراللہ کاپجاری بن جائے۔وہ جان لے کہ جس طرح عمل علم کامحتاج ہے اسی طرح علم بھی اللہ کا محتاج ہے۔اس حقیقت کوسمجھنے کے لئے صرف تھوڑی دیر کے لئے اپنی زندگی کے سفرپرہی نگاہ ڈال لے جوزمین پراس کے ظاہرہونے سے قبل کہاں سے شروع ہوا۔رحم مادرسے لے کر پیدائش تک کس کامحتاج تھا، پھر پیدائش سے لے کر لڑکپن اور جوانی تک ماں باپ اور دوسرے وسائل کادستِ نگررہا،کہیں بھی اس نے اپنا مسئلہ خودحل نہیں کیابلکہ اللہ کاہاتھ ہی اس کے مسائل کوحل کرتارہا۔پھراس مختصر زندگی کے بعدموت کے وقت سے اپنے مٹائے جانے کے مراحل تک پھر اللہ اوراس کی ہدائت کاقطعی محتاج۔کوئی اس کو بناتا ہے تویہ بن جاتاہے،کوئی مٹاتاہے تواس کی مجال نہیں کہ اس کے حکم کی روگردانی کرسکے۔پھراس کومٹائے جانے کے بعد بنائے جانے کے باب میں تووہ قطعی طورپراللہ کامحتاج ہوگا۔پھرکیسایہ ظلم ہے کہ باوجودان تمام حقائق کے کہ وہ شروع میں بھی اللہ کی ہدائت کامحتاج،اس کاانجام بھی اللہ کی ہدائت کامحتاج لیکن رحمِ مادرسے لے کر قبرتک وہ اس اللہ سے بے نیازہو کرچلناچاہتاہے۔بس اسی احمقانہ ارادے کی بدولت اس نے دنیامیں تباہی پھیلارکھی ہے اوراب ان تمام مسائل میں ایساالجھاہے کہ اس کو سلجھانے کی کوئی تدبیرکارگرنہیں رہی۔ قرین انصاف تویہ ہے کہ ایسے باغی کے لئے ہدائت کے تمام دروازے بندکردیئے جائیں لیکن اس کریم رب نے اس محتاج ہستی کے لئے فرشتوں کوزمین پراتارا،اپنے انبیا ورسل کاسلسلہ جاری فرماکرہدائت کے دروازے کھول دیئے اوروعدہ فرمایاکہ اگرتم واپس میرے طرف ہدائت کے لئے رجوع کروگے توتمہارااستقبال کیاجائے گا۔’’یعنی ہماری راہ میں سعی وعمل کرو گے،ہم سے ہدائت طلب کروگے تم پرکامیابی کے دروازے کھول دیئے جائیں گے‘‘۔قوموں سے وعدہ فرمایا’’کہ اگرتم اللہ کی مددکروگیت توتمہاری مددکی جائے گی‘‘۔ یہ ہے دراصل وہ ہدائت جس کے بغیرکوئی بھی فرد مسائل حیات کی صحیح راہ دریافت نہیں کرسکتا،پھرکیوں نہ اس اللہ سے راہِ ہدائت طلب کی جائے جس کے وعدوں کوہم کئی دفعہ آزما چکے ہیں۔کیوں نہ اللہ سے مانگنے کاڈھنگ سیکھیں اورزندگی کی دو عملی سے توبہ کرکے آج ہی اس کے دربارمیں جھک جائیں۔آج جن الفاظ میں ہم اپنے رب کی ہدائت کے طالب ہیں ان میں تبدیلی لائیں،زبان سے نہیں بلکہ اپنے قلب کواس کی طرف متوجہ کرکے ہدائت کے طالب بنیں۔ہم اپنی حقیقی زندگی سے جوچاہ رہے ہیں وہی دراصل اپنے رب سے مانگ رہے ہیں۔اللہ ہمارے لفظوں کونہیں بلکہ ہمارے قلوب اوراعمال کودیکھ رہاہے۔ہم اپنے اصل وجود میں جس چیزکے طلبگارہیں اس کے لئے بے قراربھی ہیں؟ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ بچہ ماں سے روٹی طلب کرے اورماں اس کے ہاتھ میں انگارہ رکھ دے اسی طرح اللہ جوماں سے ستر گنازیادہ مہربان ہے اس کوکیسے گوارہ ہے کہ بندہ اس سے ہدائت طلب کرے اوروہ اس کوگمراہیوں میں بھٹکنے دے۔ بندہ اللہ سے خشیت مانگے تواللہ اسے قساوت دے،بندہ اللہ کی یادمانگے تووہ اسے نسیاں میں مبتلاکردے،بندہ آخرت کی تڑپ مانگے اوروہ اس کودنیاکی محبت میں ڈال دے۔بندہ کیفیت سے بھری دنیاداری مانگے اوروہ بے روح دنیاداری میں مبتلاکردے۔بندہ اللہ سے حق پرستی مانگے اوروہ شخصیت پرستی کی تاریک راہوں پرڈال دے۔گویاہماری مطلوب چیزکانہ ہونااس کاثبوت ہے کہ ہم نے اپنے رب سے مانگاہی نہیں۔اگر ہمیں دودھ خریدناہوتوچھلنی لے کر بازار جائیں تو پیسے خرچ کرنے کے باوجودہم خالی ہاتھ لوٹیں گے ۔اسی طرح زبان پردعائیہ کلمات جاری ہوں لیکن اصل ہستی کسی اورطرف متوجہ ہوتوگویانہ ہم نے مانگااورنہ ہی ہمیں ملا ۔ یہ تومالک کائنات کی غیرت کے خلاف ہے کہ بندہ آخرت میں اس کوحسرت کی نظرسے پوچھے کہ اس نے دنیامیں کچھ مانگااوراسے محروم رکھاگیا،یہ توناممکن ہے۔کائنات کامالک توہرصبح وشام اپنے سارے خزانوں کے ساتھ ہمارے قریب ترین ہوکرآوازدیتاہے’’کون ہے جومجھ سے مانگے تاکہ میں اسے دوں‘‘۔ تاریخ گواہ ہے اللہ نے ہمیشہ اپنے وعدوں کوپورافرمایا۔انسانی تاریخ توایک کھلی ہوئی کتاب ہے جس کے ہرورق کی ہرسطرمیں اللہ کے تکمیل وعدہ کے انمٹ ثبوت روزِروشن کی طرح ہمیںملتے ہیں۔بنی اسرائیل کی بے سروسامانی،پامالی اورشکستہ حالی سے کون واقف نہیں تھا لیکن فرعون کی جابروقاہرحکومت ان کابال بیکانہ کرسکی۔خودفرعون کی لاش کوخشکی پرچند فٹ زمین قبر کے لئے نہ مل سکی۔نمرودنے آگ کاایک مہیب الاؤ جوسیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے تیارکیاتھا وہاں رب کے وعدوں نے امن وسکون کاگلشن پیدا فرمایا۔ آج نمرود اورنمرودیت کانشان تک نہیں مگرابراہیم علیہ السلام اورابراہمیت کی خاک سے سینکڑوں رسالت کے چاندنمودارہوچکے ہیں۔وہ لوگ جن پرکوئی حکومت کرناپسند نہیں کرتاتھا،وہ جب اللہ کی ہدائت کے ساتھ اٹھے تودنیاکی تہذیب کے کئی ایک باب تحریرکرگئے۔وہ جن کے قدموں پرظلم ووحشت کی دھول جمی ہوئی تھی،اللہ کی ہدائت کے بعد جہاں بھی ان کے قدم گئے خوشحالی اورامن اس جگہ کامقدرٹھہرا۔ آئیے!اگرواقعی آپ ارضِ وطن کودرپیش ان تمام مشکلات سے نکالناچاہتے ہیں تواوفوبالعہدکی پاسداری کرتے ہوئے قرآن کے مکمل نفاذکا اعلان کریں اوران مصائب سے گلو خلاصی کے لئے راہِ ہدائت کے لئے اپنے قلوب کودوبارہ اپنے رب کی تعلیمات سے جوڑیں۔اپنی جبینوں کواسی رب کے سامنے خاکستر آلودہ کریں کہ واقعی ہدائت کے خزانوں کاصرف وہی مالک ہے۔ آج ہی اپنی ذات سے اس نیک کام کاآغازکریں،تاکہ کل کی صبح کاسورج ہماری کامیابی کاگواہ ہو۔رب کریم سے دعاہے کہ ہمیں’’ہدائت‘‘کی دولت سے مالا مال فرمائے ثم آمین۔