اسلام آباد ( اے بی این نیوز ) بڑھتی آبادی، درجہ حرارت، کم واٹر اسٹوریج کے باعث پاکستان میں 2040 تک پانی کی سطح شدید کم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور شہرکاری کے مسائل بڑھ رہے ہیں، ایشیائی ترقیاتی بنک کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق
پاکستان کے شہری علاقوں میں آبادی بڑھنے کی شرح 3.65 فیصد تک پہنچ گئی۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں آنادی بڑھنے کی شرح دیہی علاقوں کی نسبت دوگنی ہے۔ 2050 تک پاکستان کی آبادی 40 کروڑ تک تجاوز کر جائے گی۔
آبادی میں تیزی سے اضافہ کے باعث شہروں میں بنیادی سہولت کا فقدان بڑھے گا۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث لوگوں کا رہن سہن غیرمعیاری ہو رہا ہے۔ شہروں میں منصوبہ بندی کے بغیر غیرقانونی اور بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
غیرقانونی اور بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزی سے شہروں میں ماحول اور نظام میں خرابی ہو رہی۔ زرعی زمینوں پر بڑھتی ہوئی انکروچمنٹ کے باعث مستقبل میں غذائی قلت کا خدشہ ہے۔
پاکستان کو بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث نئے شہر اور مستقل پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔
اکنامک پاور ہاؤس، تعلیم، رہن سہن کیلئے بہتر مواقع فراہم کرنے کیلئے پالیسی بنانا ہو گی۔ گزشتہ سال کے دوران پاکستان کو زدمبادلہ ذخائر میں کمی اور تاریخی مہنگائی کا سامنا تھا۔ 2018 میں کراچی کا جی ڈی پی میں کنٹریبیوشن 15 فیصد اور ٹیکسز میں 55 فیصد تھا۔
پاکستان کے 10 بڑے شہر وفاقی ٹیکسز میں 95 فیصد کنٹریبیوشن کر رہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے اور لوکل گورنمنٹ شہروں میں سروسز اور مینجمنٹ کو بہتر نہیں بنا سکی۔ 2022 اور 2010 کے سیلاب کے باعث پاکستان کی معیشت کو 40 ارب ڈالر کا نقصان ہو۔
2022 اور 2010 کے سیلاب کے باعث 3700 افراد کی اموات ہوئی۔ 2015 کے دوران کراچی میں ہیٹ ویو کے باعث 1200 افراد کی اموات ہوئی۔
کلائمیٹ چینج کے باعث پاکستان کو ساؤتھ ایشیا ریجن میں سب سے زیادہ معاشی نقصان ہوا۔
بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پاکستان کو سالانہ 3 لاکھ 50 ہزار نئے گھروں کی ضرورت ہے۔ آبادی کی سیٹلمنٹ کیلئے مجموعی طور پر 1 کروڑ نئے گھروں کی ضرورت ہے۔ 2040 تک پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان 23 ویں نمبر پر آ سکتا ہے۔
شہری علاقوں میں 43 فیصد آبادی کو تاحال بہترین پانی کی نہ فراہمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ شہری علاقوں میں تقریبا 18 فیصد آبادی بنیادی حفظان صحت کے اقدامات سے محروم ہے۔ شہری علاقوں میں آبادی کو پینے کیلئے طلب سے نصف مقدار میں پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
کراچی میں تقریبا پینے کیلئے 35 سے 58 فیصد پانی چوری، لیکج کے باعث ضائع ہو رہا ہے۔ پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں پانی اسٹوریج سمیت متعدد مسائل ہیں۔ پاکستان کو 10 سالہ، 20 سالہ اور 30 سالہ شہرکاری کا نیا پلان بنانے کی ضرورت ہے۔
میونسپل سروسز کو بہتر بنانے کیلئے پرائیویٹ پارٹنرشپ ایگریمنٹس کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومتوں کو لوکل گورنمنٹ ایکٹ اور ان پر عملدرآمد کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے بعد آبادی بڑھنے کی رفتار میں تیزی ہوئی ہے۔
1998 سے 2017 تک آبادی بڑھنے کی رفتار 2.4 فیصد، 1981 سے 1998 تک 2.7 فیصد تھی۔ 1972 سے 1981 تک آبادی بڑھنے کی رفتار 3.1 فیصد، 1961 سے 1972 تک 3.6 فیصد تھی۔
1 کلومیٹر کی حدود میں اوسطا 621 افراد ہونے کے باعث پنجاب دنیا کے گنجان آباد علاقوں میں شامل۔ صوبہ پنجاب ایک کلومیٹر کی حدود میں زیادہ آبادی رکھنے والوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔
پاکستان میں موجودہ اربن ڈویلپمنٹ ماڈل کی جگہ نیا نظام بنانے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں :پی ٹی آئی کاملک دشمنی پرمبنی ایجنڈابےنقاب ہوچکا،وفاقی وزیراطلاعات عطاتارڑ