چاند کی مٹی کس کام آسکتی ہے ؟ماہرین نے نئی وجہ دریافت کرلی

نیویارک(نیوزڈیسک)ماہرین نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ چاند کی مٹی گلوبل وارمنگ کم کرنے کے کام آسکتی ہے۔غیرملکی خبررساںادارے کے مطابق حال ہی میں سائنس دانوںنے ایک نیا نظریہ پیش کیا جس میں کہا گیا ہے کہ اگر چاند کی مٹی یا دھول کو زمین اور سورج کے درمیان حائل کر دیا جائے تو زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا عمل نہ صرف رک جائے گا بلکہ اس میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر سورج کی حرارت کے زمین تک پہنچنے کا ایک سے دو فی صد کا راستہ روک دیا جائے تو کرہ ارض کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کی کمی ہو جائے گی۔ماحولیات کے سائنس دان اس وقت ایسے اقدامات پر زور دے رہے ہیں جس سے زمین کے درجہ حرارت میں تقریباً ڈیڑھ درجے سینٹی گریڈ کی کمی ممکن ہو سکے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ درجے کی کمی سے زمین کا درجہ حرارت گر کر اس سطح پر چلا جائے گا جب صنعتی ترقی کا آغاز ہوا تھا۔ اس دور کے موسم ماحول دوست تھے اور موسم سے منسلک وہ قدرتی آفات کم کم ہی آتی تھیں جنہوں نے اب گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے اور آئے روز کہیں خشک سالی، کہیں شدید بارشیں اور سیلاب اور کہیں سمندری طوفان تباہیاں پھیلا رہے ہیں۔سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے زمین گرم ہوتی جائے گی، ان واقعات کی تعداد اور شدت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا اور اگر زمین کو مزید گرم ہونے سے روکا نہ گیا تو ہو سکتا ہے کہ اس صدی کے آخر تک زمین رہنے کے قابل نہیں رہے۔کچھ عرصے سے ماہرین کی توجہ کسی ایسے قابل عمل طریقے کی تلاش پر مرکوز ہے جو سستا بھی ہو۔ جس کے لیے ان کی نظریں خلا پر جمی ہیں۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ جب آسمان پر بادل چھا جاتے ہیں تو زمین پر قدرے خنکی محسوس ہونے لگتی ہے کیونکہ بادل کی تہیں سورج کی حرارت کے ایک بڑے حصے کو زمین پر جانے سے روک دیتی ہیں اور حرارت کی لہریں واپس خلا میں پلٹ جاتی ہیں۔اسی طرح کا ایک بڑا واقعہ سن 1991 میں فلپائن کی آتش فشاں ماؤنٹ پیناٹوبو کے پھٹنے سے پیش آیا تھا جس سے نکلنے والے گرد وغبار نے فضا کے ایک حصے کو ڈھانپ لیا تھا جس سے سورج سے زمین پر آنے والی حرارت کی لہروں کے درمیان ایک رکاوٹ کھڑی ہو گئی تھی۔اس کے نتیجے میں زمین کے شمالی نصف حصے میں ایک سال تک درجہ حرارت معمول سے تقریبا آدھا ڈگری سینٹی گریڈ کم رہا تھا۔ لیکن اس سے موسم پر اثر پڑا تھا اور جن علاقوں میں لوگ فصلیں اگانے کے لیے بارشوں پر انحصار کرتے ہیں، وہاں پیداوار متاثر ہوئی تھی۔ چنانچہ اس طرح کے طریقے استعمال کرنے کے لیے احتیاط کی ضرورت ہے۔زمین اور سورج کے درمیان چاند کی دھول اور مٹی کے تہہ بچھانے سے قبل کئی سائنس دان اس پہلو پر بھی سوچ بچار کرتے رہے ہیں کہ خلا میں بڑے بڑے آئینے نصب کر دیے جائیں جو زمین کی طرف آنے والی سورج کی حرارت کو واپس پلٹ دیں۔بعد ازاں ان کی توجہ خلا کی جانب مبذول ہو گئی اور انہیں کسی ایسی چیز کی تلاش ہوئی جو زمین اور سورج کے درمیان ایک باریک سی چادر تان دے جو فلڑ کے طور پر کام کرے۔سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر اس مٹی کو زمین اور سورج کے درمیان ایک ایسے مقام پر بکھیر دیا جائے جہاں زمین اور چاند کی کشش کی قوت برابر ہو تو وہ مٹی وہاں مستقلاً موجود رہے گی اور سورج کی حرارت کی اتنی مقدار روک سکے گی جس کا تعین ماہرین کریں گے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے کیونکہ چاند سے مطلوبہ مقدار میں مٹی لانے پر اتنا ہی خرچ آئے گا جتنا کہ ایک کان کی کھدائی پر آتا ہے۔