موضوع سے ہی ظاہر ہے کہ میں آپ کو قرآنی اسلوب ہدایت کی طرف لے کر جانا چاہتا ہوں۔ میں تحقیق، تنقح، تخریج میں کھدرپوش فقیر، محدث مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کا کچھ مختصر مدت کا شاگرد ہوں۔ انہی عظیم استاذ کی شاگردی کا اعزاز حماد الحق نعیم کو بھی حاصل ہے مذکورہ موضوع پر ان کی فکری کاوش قارئین کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں، آئیے حماد الحق نعیم سے کچھ سمجھیں۔ ان کی تحریری رہنمائی قبول فرمائیں۔
خیر و شرکا کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور خیر و شر کا علم، وقت اور کیفیت بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ اعتقاد اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے، لیکن موجودہ دور کی برق رفتار ترقی اور معلومات کے تیز ترین ذرائع نے انسانیت کو اعتقاد سے بہت دور کر دیا ہے۔ اب وہ ہر قدرتی آفت سے پناہ مانگنے کی بجائے اس سے نمٹنا چاہتی ہے اور متوقع نقصان سے بزور بازو بچنا چاہتی ہے، چنانچہ تقدیر الٰہی پر ایمان کمزور ہوتا چلا جارہا ہے اور توکل علی اللہ نسیاً منسیاً کر دیا گیا ہے۔ ہم قطعاً یہ نہیں کہتے کہ کسی بھی آفت پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا چاہیے اور نقصان سے بچنے کے لئے اسباب نہیں اختیار کرنے چاہیے۔ ہمارا مدعا صرف یہ ہے کہ مادی وسائل کے ساتھ ساتھ روحانی اسباب پر بھی ہر مسلمان کی پوری نگاہ ہونی چاہیے جس کے لئے مصیبت و پریشانی کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر ہر دم پیش نگاہ رہنا چاہیے۔ مصائب و آلام اور شدائد و آفات سے خالی زندگی کسی کی بھی نہیں ہے، حتیٰ کہ انبیائے کرامﷺ کی زندگی بھی اس سے مبرا نہیں رہی۔ قرآن مجید نے متعدد مقامات میں آزمائشوں کی مختلف وجوبات بیان فرمائی ہیں، چند اہم اور عمومی اسباب ملاحظہ فرمائیے: بڑی آفت سے بچانے کے لئے چھوٹی آزمائس: یہ انسانی فطرت بھی ہے اور شرعی طور پر مطلوب امر بھی۔ چنانچہ حضرت موسیٰؑ اور خضر کے قصے میں حضرت خضر نے مسکینوں کی کشتی کو معمولی عیب دار کرنے کی جو توجیہ بحکم ربانی بیان فرمائی ہے، اس پر غور کرنے سے یہ عقدہ کھلتا ہے کہ کشتی میں معمولی عیب پیدا کرنا، اس کے چھن جانے کی تکلیف سے بہرطور کم درجے کی پریشانی تھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان مسکینوں پر ڈالی گئی۔ ’’رہی کشتی تو وہ چند مسکینوں کی تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی چھین کرلے لیتا تھا۔‘‘ (الکھف79:) اسی طرح مسلمان پر آنے والی دنیوی پریشانیاں روز قیامت کے حساب و عذاب میں کم سے کم نرمی کا باعث ضرور بنیں گی، چنانچہ حدیث مبارک ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو دنیا ہی میں اسے گناہوں کی سزا دیتے رہتے ہیں اور جب بھلائی کا ارادہ نہیں فرماتا تو اس کی عقوبت موخر فرما دیتے ہیں، حتیٰ کہ روز قیامت اسے پوری پوری سزا دی جائے گی۔ (سنن ترمذی 2396:) اعمال بد کی وجہ سے: اللہ تعالیٰ نے اجتماعی گناہوں کو اجتماعی خرابی کا باعث قرار دیا ہے اور انفرادی مصیبت کا ذمہ دار بھی اسی انسان کو ٹھہرایا ہے جو اس میں مبتلا ہو۔ بروبحر کے فساد اور خرابی کی وجہ ہمارے اپنے کرتوت ہیں۔ اسی طرح آنے والی ہر پریشانی کا سبب انسانی کی اپنی کوتاہیاں ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اس کی وضاحت فرمائی ہے، بلکہ سورت شوریٰ میں الفاظ ہیں: ’’اور جو مصیبت بھی تم پر آتی ہے، وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے، ابھی اللہ تعالیٰ تمہاری زیادہ تر نافرمانیوں کو معاف کر دیتے ہیں۔‘‘ (الشوریٰ30:) کبھی یہ مصیبتیں آزمائش اور امتحان کے لئے ہوتی ہیں، مقصد بلندی درجات اور گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے، بالعموم اہل ایمان ان سے دوچار ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں بھی کہاگیا ہے کہ ’’اور یقینا ہم تمہیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیں۔‘‘ (البقرہ 155:) ان آزمائشوں کا ایک مقصد ایمان کی پرکھ بھی بتایا گیا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے حضور نبی کریمﷺ سے دریافت کیا کہ کن لوگوں پر سب سے زیادہ آزمائشیں آتی ہیں؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’انبیاءﷺ پر، پھر ان کے بعد درجہ بہ درجہ جو لوگ ہوتے ہیں۔ آدمی اپنی دین داری کے بقدر آزمایا جاتا ہے جس کی دین داری مضبوط ہوگی، وہ اتنی ہی سخت آزمائش کا سامنا کرے گا۔ اگر اس کے ایمان میں کچھ سستی اور کمی ہوگی تو اتنا ہی اسے آزمایا جائے گا۔ ایسے بندوں پر آنے والی مصیبت اس وقت ٹلتی ہے جب اس کے تمام گناہ ختم ہو جائتے ہیں۔ ‘‘ (ترمذی 2398:) یہ آزمائش ایمان کی جانچ پڑتال کے ساتھ ساتھ مفتون کے گناہوں کا کفارہ بھی بن جاتی ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’مسلمان کو جو بھی بیماری، جسمانی تھکاوٹ، گزشتہ اور متوقع ہموم وغموم اور تکلیف و غم پہنچتا ہے، حتیٰ کہ ایک کانٹا بھی جو اسے چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کی خطائیں معاف فرما دیتا ہے۔ (صحیح بخاری 5641:) توبہ و اصلاح کا موقع: برادران یوسف حسد کے نتیجے میں سرزد ہونے والی اپنی اس غلطی کا بوجھ اٹھائے جیتے رہے، مگر توبہ و اصلاح کی توفیق نہ ہوسکی، تاآنکہ ان پر وہ مصیبت آن پڑی جو بنیامین کے بچھڑنے کا سبب بنی۔ بعدازاں اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا اور استغفار کے لئے اپنے والد محترم حضرت یعقوبؑ کے حضور استدعا بھی کی۔اسی طرح حضرت آدم ؑ کو بھی اپنی غلطی کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائش کا سامنا کرنے پر احساس خطانے توبہ و انابت پر مجبور کیا۔ چنانچہ ہر اجتماعی و انفرادی پریشانی کو نوشتہ تقدیر سمجھ کر راضی بہ رضائے الٰہی رہنا ہی ایک مسلمان کا شیوہ ہوتا ہے اور مصیبت آجانے پر اس کا مقابلہ کرنے کی بجائے مقدور بھر حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں اور باری تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کی جائے۔