قارئین کرام، اب تو یہ خبر عام ہو چکی ہے کہ سعودی عرب نے اسٹیٹ بینک میں دو ارب ڈالر جمع کروا دیے ہیں۔ وزرات خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان ایکسٹرنل فنانسنگ کا معاملہ بھی طے پا گیا ہے، آئی ایم ایف نے 8.2ارب ڈالر کی فنانسنگ گیپ کا منصوبہ بھی مان لیا ہے۔ پاکستان کا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ قرض کا معاہدہ ہوتے ہی معیشت کے مستحکم ہونے کے آثار پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اِس معاہدے کے لیے پاکستان کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے اور حکومت کو کتنی یقین دہانیاں کرانا پڑیں یہ سب کو معلوم ہے، تاہم اچھی بات یہ ہے کہ محنت رنگ لے آئی اور بالآخر ہم عالمی مالیاتی ادارے سے معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پاکستان کی کمزور ہوتی معیشت کو اِس سے گویا نئی زندگی مل گئی ہے اور مثبت خبریں آنا شروع ہو چکی ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، مہنگائی کے اعشاریوں میں کمی اور روپے کی قدر میں بہتری آنے والے اچھے دِنوں کی نوید تو ہے لیکن ہنوز دِلی دور است۔ وزیراعظم شہباز شریف درست کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ لمحہ فخریہ نہیں لمحہ فکریہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ استحکام عارضی ہے یا واقعی اس کے ذریعے کوئی ایسی مثبت تبدیلی آتی ہے، جس کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے معاشی ماہرین یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں بننے والی نئی حکومت کو فوری طور پر ایک اور نئے پروگرام میں جانا پڑے گا۔ آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان دو ریویوز ہوں گے، جن کی کامیاب تکمیل پر ہر ریویو کے بعد ایک، ایک ارب ڈالر جاری ہوں گے جب کہ پروگرام کی منظوری ملنے کے بعد آئی ایم ایف 1.1بلین ڈالر دے گا۔
پاکستان نے لیٹر آف انٹینٹ میں آئی ایم ایف کو متعدد یقین دہانیاں کرائی ہیں جن میں یہ یقین دہانی بھی شامل ہے کہ پاکستان آئندہ 9 ماہ کے دوران کوئی نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہیں دے گا، اس کے علاوہ پاکستان قرض دینے والے دوست ممالک اور اداروں کی یقین دہانیوں پر عمل درآمد کرائے گا۔ آئی ایم ایف کو یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ پاکستان اپنے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے گا اور سرکاری اداروں میں اصلاحات کی جائیں گی۔ دنیا کے ممالک اور اداروں کی معیشت کی درجہ بندی کرنے والے بین الاقوامی شہرت کے حامل ادارے موڈیز نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدہ پاکستان کی معیشت کو استحکام دے گا اور اس سے حکومت کی مالی گنجائش میں معمولی بہتری آئے گی۔ جن اصلاحات پر آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے زور دیا جارہا ہے حکومت ان کا سارا بوجھ عوام پر ڈالتی ہے جب کہ بڑی مچھلیاں اس کے جال میں آتی ہی نہیں ہیں۔ یہ صورتحال افسوس ناک بھی ہے اور قابلِ مذمت بھی، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی تو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے اور سب سے زیادہ ٹیکس کا بوجھ بھی اس پر ڈالا جارہا ہے۔ وہ طبقہ جو اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات سالانہ بنیادوں پر حکومت پاکستان سے وصول کرتا ہے اس کی مراعات و سہولیات پر تو کوئی قدغن لگتی ہی نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جن کی وجہ سے عوام کو حقیقی ریلیف ملنا ممکن ہی نہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی، این ایچ ڈی آر، جی ڈی پی کا تقریباً 6فیصد حصہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات پر صرف ہوتا ہے۔ یہ رقم ساڑھے سترہ ارب ڈالرز کے لگ بھگ بنتی ہے اس جائزے میں جن تین گروہوں کو سب سے زیادہ مراعات حاصل کرنے والا بتایا گیا وہ بالترتیب کاروباری طبقہ، ایک فیصد امیر ترین افراد اور جاگیردار ہیں۔ کاروباری طبقے کی طرف سے لی جانے والی مراعات کا حجم اس رپورٹ کے مطابق، تقریباً پونے پانچ ارب ڈالرز ہے۔رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک فیصد امیر ترین لوگ ملک کی مجموعی آمدنی کے نو فیصد کے مالک ہیں جب کہ جاگیردار جو ملک کی آبادی کا ایک اعشاریہ ایک فیصد ہیں بائیس فیصد قابلِ کاشت رقبے کے مالک ہیں۔ اس رپورٹ کے مندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر واضح طور پر دو ریاستیں موجود ہیں ایک متوسط، غریب اور پس ماندہ طبقات پر مشتمل اور دوسری وہ جس کا نہ صرف وسائل پر قبضہ ہے بلکہ اقتدار و اختیار کی مختلف شکلیں بھی اسی کے زیرِ اثر ہیں، اسی لیے کوئی چاہ کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ این ایچ ڈی آر میں دولت اور وسائل کی جس غیر منصفانہ تقسیم سے متعلق حقائق سامنے لائے گئے ہیں اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بیس فیصد امیر لوگ ملک کی تقریباً نصف آمدنی کے حامل ہیں اور ان کے مقابلے میں بیس فیصد غریب لوگ مجموعی آمدنی میں صرف سات فیصد حصہ رکھتے ہیں۔ (جاری ہے )