خودفریبی کی چادر
کون نہیں جانتاکہ ہمارے تمام موجودہ سیاستدان اپنے اقتدارکے لئے اس حدتک چلے جاتے ہیں کہ اپنی تقاریرمیں جن کی پیٹ پھاڑنے کی باتیں کی گئیں
(گزشتہ سے پیوستہ)
کون نہیں جانتاکہ ہمارے تمام موجودہ سیاستدان اپنے اقتدارکے لئے اس حدتک چلے جاتے ہیں کہ اپنی تقاریرمیں جن کی پیٹ پھاڑنے کی باتیں کی گئیں،اپنے مفادات کے لئے آج اس طرح شیروشکرنظرآتے ہیں کہ گویاساری قوم کونسیان کامرض لاحق ہے،اوریہ ایک مرتبہ پھرممکنہ آئندہ انتخابات میں خوشنماوعدوں کی بارش سے عوام کوشرابورکرکے،ان سے ووٹ لیکراقتدارکی مسندتک خود اوراپنی اولادکولانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔عمران خان کی حکومت گرانے کے لئے 13جماعتوں کے اتحادپی ڈی ایم بنانے کے لئے زرداری صاحب نے جومحنت کی،اس کاصلہ تووہ یقیناوصول کرنے کے لئے بے تاب ہیں ۔
ہمیں تواب تک یادہے کہ جس ادارے کے سربراہ کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کانعرہ لگاکرفوری طورپرڈھائی سال دبئی کے محل میں جاکرچھپ گئے تھے۔2018ء کے انتخابات سے قبل ہی عمران کے حق میں اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرلی جس کی بنا پرالیکشن سے قبل نون لیگ کی طرح زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے رہنما بھی گرفتاری سے محفوظ رہے۔اس ڈیل کے تحت پارٹی کی قیادت نے بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت ختم کروانے اور’’باپ‘‘ کو بلوچستان کاباپ بنانے کے منصوبے میں بھرپورکرداراداکیا۔سینیٹ میں رضاربانی کی جگہ صادق سنجرانی کوسینیٹ کاچیئرمین بنانے کی خدمت بھی اسٹیبلشمنٹ کے ایماپرسرانجام دی ، یوں جہاں عمران کو ناجائز طریقے سے قوم کے سروں پرمسلط کرنے کی سازش میں پیپلز پارٹی بالواسطہ مگربھرپور طریقے سے سہولت کار بنی وہی اپنے انہی آقاکی ایماپرعمران کی حکومت گرانے کاکرداربھی اداکیا۔
پاکستان آئی ایم ایف کے پاس آٹھ دسمبر 1958ء سے آج تک23بارگیاہے۔امریکہ کے منظورنظرایوب خان کے نام نہادصنعتی اورسبز انقلاب، امریکی اقتصادی امداداورعالمی بینک کی مالی وٹیکنیکل فوائد کا ڈھونڈوراپیٹنے کے باوجودآئی ایم ایف کے سامنے تین بارماتھا ٹیکناپڑا۔بھٹودورمیں خودکفالت کی خاطرسوشلسٹ معیشت اپنانے کی پالیسی بھی چار بار آئی ایم ایف کے درپرجانے میں رکاوٹ نہ بن سکی۔ضیاء الحق کے لئے افغان خانہ جنگی کے طفیل اربوں ڈالروں کی بہاراوراسلامی نظامِ معیشت اختیارکرنے کی کچی پکی کوششوں کے فیوض وبرکات بھی آئی ایم ایف کی زنجیر 2 بارہلانے سے بازنہ رکھ سکیں۔بے نظیرکوتو5 مرتبہ آئی ایم ایف کادامن تھامناپڑا۔
نوازشریف جوکاسہ گدائی توڑنے کانعرہ لگاتے ہوئے مسنداقتدارتک پہنچے تھے لیکن اپنے تینوں ادوار میں آئی ایم ایف کی منت سماجت کے لئے چار مرتبہ اسحاق ڈارکواستعمال کیا۔ مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ڈالرانہ آمدنی اورمعاشی ترقی میں چھ فیصد سالانہ اضافے کاغبارہ اڑانے کے ساتھ ساتھ قومی غیرت کوبھی بیچ میدان میں فروخت کیا لیکن اس کے باوجودشوکت عزیزکے ایماپر آئی ایم ایف کے درپر دوبارحاضری دی اورزرداری جواب قومی خزانے کو 100ارب ڈالرتک پہنچانے کی نویدسنارہے ہیں،یہ بھی اپنے دورمیں آئی ایم ایف کے محتاج رہے۔ اقتدارسے پہلے عمران خان کی موجودگی میں ان کے انتہائی منظورنظرمرادسعیدتواقتدارسنبھالتے ہی بیرون ملک سے200ارب پاکستان لانے اورآئی ایم ایف کے منہ پرمارنے کاجودعویٰ کرتے رہے اورعمران خان توآئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے پھانسی پرلٹکنا بہترسمجھتے تھے،انہوں نے حلف اٹھانے کے ایک ماہ بعدہی اسدعمرکوواشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ہیڈکوارٹرکا طواف کرنے کے لئے روانہ کردیااورقوم کے سامنے یہ جواز رکھا کہ ’’مجھے توپتہ ہی نہیں تھاکہ اندرکاحال اتنابراہے‘‘ ۔
اب شہبازحکومت نے آئی ایم ایف کی نویں قسط حاصل کرنے کے لئے پچھلے آٹھ ماہ میں اپنے تمام درپردہ گھوڑے کھول لیے،تین دوست ممالک کے ہاتھ پاؤں جوڑکرقرضوں کارول اوورکرواکے تحریری سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔ اپنی مرضی کابجٹ پیش کرکے آئی ایم ایف کی مرضی کی ترامیم کیں۔جغرافیائی ونظریاتی سرحدوں کی ذمہ دارفوجی قیادت کوملک کی معاشی سرحدوں کے تحفظ کے لئے بھی بیچ میں ڈالا۔پیرس میں آئی ایم ایف کی ایم ڈی کے سامنے وزیرِاعظم تین بارکرسی پرایسے بیٹھے جیسے کوئی عادی نالائق بچہ ہیڈمسٹریس کے روبروبیٹھتا ہے اورآخرمیں ہیڈمسٹریس ترس کھاکے کہتی ہو،آئندہ ایساکیاتوسکول سے نکال دوں گی۔تب کہیں جاکے تمام ترکوششوں کے باوجودتین ارب ڈالرکی سٹینڈبائی فیسلیٹی کامعاہدہ ہوا۔ اس کامطلب ہے کہ مریضِ معیشت کوچندماہ کے لئے مزید آکسیجن مل گئی ہے لیکن قوم ابھی تک اسحاق ڈارکاوہ بیان نہیں بھولی جب انہوں نے سوئٹزرلینڈکے بینکوں سے200 ارب ڈالرپاکستان لانے کادعویٰ کیاتھابلکہ اس معاہدے کوصرف چندہفتوں کی دوری بتاکرقوم کوسہانے خواب دکھائے تھے،یہ توبعد میں پتہ چلاکہ اس جھوٹ کے پیچھے جہاں اوورسیز کے فارن اکاونٹس جیسی امانت میں خیانت مطلوب تھی وہاں لندن کے ایک پاکستانی قاضی صاحب اوران کے خاندان کے نام پرکروڑوں پاؤنڈکی منی لانڈرنگ پرپردہ ڈالنا تھا۔لندن ہائی کورٹ میں حدیبیہ پیپرملزکاتین سوملین ڈالرکے قرضہ کی ادائیگی کس اکاؤنٹ سے اداکی گئی،آج تک اس کاجواب موصول نہیں ہوسکا۔
ایک دن میں نے باباجی سے پوچھا،انسان ہیں، ہم گناہ توکریں گے،ہوگابھی،پھرکیاکریں؟تو بولے:ہاں یہ توہے لیکن جب گناہ تنہائی میں سرزدہو جائے توتنہائی میں اس کی معافی مانگو،اورجب سرعام اجتماع میں ہوجائے،تواجتماع میں کھڑے ہوکرمعافی کے طالب بن جاؤاورپھرایک دن فرمانے لگے:سچائی کواختیارکرویہ روشنی ہے،نجات ہے،رہنمائی ہے،سکون ہے۔اس کی تلخی میں بھی شیرینی ہے،مٹھاس ہے اور جھوٹ!جھوٹ توبس ہلاکت ہے،اندھیراہے، گمراہی ہے،بے سکونی ہے ،اطمینان کاقاتل جھوٹ ہے اور انسانیت کابھی۔جھوٹ ایک فریب ہے،سہانا نظر آتاہے ۔بس سچائی ہی نجات ہے۔ پھرایک دن انہوں نے اس سے بھی آگے کی بات کردی:سچائی کے لئے زبانِ صادق کاہونا ضروری ہے۔ سچائی پاکیزگی ہے اورجھوٹ نجاست۔جھوٹ آلودہ زبان سچائی بیان ہی نہیں کرسکتی۔پہلے اپنی زبان وذہن کوجھوٹ کی نجاست سے پاک کرو۔ نجس زبان سے ادا کیے ہوئے الفاظ بے معنی و بے اثرہوتے ہیں،چاہے سننے میں کتنے ہی خوش کن اورسماعت میں کتنے ہی سروربکھیریں۔
عجیب لوگ تھے یہ، ہرمسئلے کی جڑجانتے تھے۔بہت سادہ بیان لیکن روح میں اترجانے والے پندونصائح سے دلوں کوروشنی اورخیرسے منورکرنے کا سلیقہ جانتے تھے۔۔۔۔ اکثرصوفیا کا قول دہرایاکرتے تھے ’’کوئی دے تومنع نہ کر،کوئی نہ دے توطمع نہ کر اورلے لے توجمع نہ کر‘‘۔وہ تھے مولانابشیراحمد سیالکوٹی، دین کی خدمت کے لئے اس وقت سعودی عرب سے واپس پاکستان آگئے جب ہردولت کمانے والے کی منزل سعودی عرب تھی۔آج انہی کی اولادڈاکٹر عبیدالرحمان اسلام آبادمیں مسجدرحمت اللعالمین کے ذریعے خلق خداکی جس طرح خدمت پر مامورہیں، یقینایہ ان بزرگوں کے فیض کانتیجہ ہی توہے لیکن کیاکروں لکھے بغیرضمیر کچوکے لگاتارہے گاکہ چنددن قبل انتہائی پریشانی کے عالم میں انہوں نے ایک عجیب واقعہ کاذکرکیاکہ کس طرح گھرکی راکھی کرنے والے راہزنی پراترآئے ہیں۔ میں ان کوہمیشہ نت نئے پروگرامزکے انسائیکلو پیڈیاسے تعبیرکرتاہوں جوہمہ وقت دینی وملی خدمات کے لئے خودکووقف کئے رہتے ہیں،ان کے ساتھ راہزنی کاروّیہ یقیناکسی نئے عذاب کاتازیانہ ثابت ہوگا۔میری اپنے انتہائی کریم ورحیم رب سے دعاہے کہ ان راہزنوں کوعقل اور ہدائت عطافرمائے۔آمین