تبلیغی جماعت ہمارے اس دور میں دین کی دعوت، عام مسلمان کو دین کی طرف واپس لانے، اور اصلاح و ارشاد کی تجدیدی تحریک ہے جس کا آغاز شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے مایۂ ناز شاگرد حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کے ہاتھوں ہوا۔ اور یہ ان کے خلوص و للہیت کا ثمرہ ہے کہ کم و بیش دنیا کا کوئی حصہ بھی دعوت و تبلیغ کی اس مبارک جدوجہد کی تگ و تاز سے خالی نہیں ہے۔ اس جدوجہد کا بنیادی ہدف عام مسلمان کو مسجد کے ساتھ جوڑنا اور عمومی سطح پر دینی ماحول کو زندہ کرنا ہے جس کے اثرات و ثمرات دن بدن پھیلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ گزشتہ صدی کی ان تجدیدی شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے دین کے مختلف شعبوں کو اپنی جدوجہد کا میدان بنایا اور اللہ تعالٰی کے فضل و عنایات سے اپنی پرخلوص محنت کے ساتھ پورے ماحول کو بدل دیا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک مجلس میں تبلیغی جماعت کی خصوصیات و امتیازات پر گفتگو ہو رہی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ میرے نزدیک حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کام کو ایک شعبے میں محصور رکھا اور دوسرے شعبوں میں کام کرنے والوں سے تعرض نہیں کیا۔ گزشتہ دو صدیوں میں بہت سے مفکرین سامنے آئے اور کسی نہ کسی کام کی دعوت کو لے کر اٹھے، اگر وہ اسی کام کی دعوت اور اس کے فروغ تک خود کو محدود رکھتے تو شاید انہیں مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا، مگر انہوں نے بیک وقت داعی، متکلم، مناظر اور مفتی بننا بھی ضروری سمجھا۔ جس سے ان کا کام نہ صرف خلفشار کا شکار ہوا بلکہ وہ خود بھی متنازع حیثیت اختیار کرتے چلے گئے۔ لیکن یہ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کی بصیرت و فراست تھی کہ انہوں نے دعوت و تبلیغ اور اصلاح و ارشاد کے اس کام کو چھ نکات میں سمویا اور اپنی جدوجہد کو اسی دائرے میں محدود کر دیا۔ جبکہ عقائد کی تعبیرات اور احکام و مسائل کے بارے میں وہ یہی کہتے رہے کہ ’’محلے کے مولوی صاحب سے دریافت کریں‘‘۔ میری طالب علمانہ رائے میں یہ بہت بڑی حکمت کی بات تھی۔ دین کے کاموں کی مختلف شعبوں میں تقسیم فطری ہے اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے چلی آرہی ہے۔ حدیث کی روایت کا اہتمام کرنے والے صحابہ کرام اپنا الگ امتیاز رکھتے تھے، قرآن کریم کی تفسیر و تاویل میں امتیازی شخصیات الگ نظر آتی ہیں، فقہ و استنباط کا ذوق رکھنے والی شخصیات دوسروں سے ممتاز دکھائی دیتی ہیں، کچھ صحابہ کرام فتنوں سے آگاہی اور ان کی نشاندہی کے میدان میں جداگانہ ذوق کے حامل رہے ہیں، بعض ممتاز صحابہ کرام کا قرآن کریم کے حفظ و قراءت میں الگ سے نام لیا جاتا ہے، جرنیل صحابہ کرام کا امتیاز بھی موجود ہے اور سیاست و انتظام میں معروف صحابہ کرام کو بھی الگ سے گنا جا سکتا ہے۔ البتہ اس دور میں یہ بات نمایاں تھی کہ کسی شعبہ میں دین کے کام نے ’’حزبیت‘‘ کا رنگ اختیار نہیں کیا تھا اور اپنے اپنے شعبہ میں کام کرتے ہوئے دوسرے شعبوں میں تعاون و اشتراک کا بھرپور جذبہ ہر سطح پر کارفرما تھا، اور اس لیے یہ تقسیم کار اپنے فطری دائرہ میں محدود تھا اور اس کے ثمرات سے امت نے بڑے عرصہ تک استفادہ کیا۔ بعض دوستوں کو یہ اعتراض ہے کہ دین کے فلاں فلاں کام تبلیغی جماعت والے نہیں کرتے اور انہوں نے دین کو ایک محدود دائرے میں بند کر دیا ہے۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے، اس لیے کہ تبلیغی جماعت نے دین کو محدود نہیں کیا بلکہ اپنی جدوجہد کے دائرے کو محدود کیا ہے، جو تقسیمِ کار کے فطری اصول کے مطابق ہے اور حکمت و دانش کا تقاضا ہے۔ تبلیغی جماعت والے بنیادی طور پر دو تین کام کرتے ہیں: ایک یہ کہ ایک عام مسلمان کو، جس کا مسجد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، گھیرگھار کے مسجد کے ماحول میں لے آتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جس شخص کا مولوی صاحب کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے، اسے بہلا پھسلا کر مولوی صاحب کے پیچھے نماز میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ اور تیسرا یہ کہ چند روز کے لیے اسے اپنے ساتھ چلا کر دین کی بنیادی باتیں سکھانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں عقائد، احکام اور اخلاقیات شامل ہیں۔ یہ تینوں کام وہ کر رہے ہیں اور جس عمومی سطح پر وہ کام کرتے ہیں کوئی اور ادارہ نہیں کر رہا۔ ہمارے پاس مساجد و مدارس میں جو لوگ چل کر آتے ہیں ہماری محنت انہی تک محدود رہتی ہے، مگر تبلیغی جماعت والے چل کر لوگوں کے پاس جاتے ہیں اور انہیں دین کے ماحول میں آنے کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ مسجد و مدرسہ کی آبادی بڑھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اگر ان دوستوں کے کام کو اسی سطح پر محدود رکھتے ہوئے اس سے اگلا کام خود کریں کہ ان کے بھرتی کیے ہوئے لوگوں کی دین کے دیگر شعبوں میں تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں، اور یہ طے کر لیں کہ بھرتی کا کام ان کا ہے اور اس سے اگلا کام ہمارا ہے، تو میرے خیال میں کوئی شکایت باقی نہیں رہے گی۔ مگر بدقسمتی سے ہماری اس طرف اجتماعی طور پر توجہ نہیں ہے جس سے دھیرے دھیرے ’’حزبیت‘‘ کا ماحول پیدا ہو رہا ہے۔ (جاری ہے)