اہم خبریں

وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالہیٰ کو صوبائی اسمبلی کی کل رکنیت کا اکثریتی ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے،وسیم سجاد

اسلام آباد (نیوز ڈیسک)پنجاب میں پی ٹی آئی کی زیر قیادت اتحاد کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعلیٰ ممکنہ طور پر 11 جنوری سے پہلے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں گے۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو 186 ووٹوں کی ضرورت نہیں بلکہ ان کی اکثریت کی ضرورت ہے جو ووٹنگ کے وقت صوبائی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے موجود ہوں۔ پارلیمانی سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے والے آئینی ماہروسیم سجاد نے کہا کہ آئین کے مطابق وزیراعلیٰ کو صوبائی اسمبلی کی کل رکنیت کا اکثریتی ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ متعلقہ آرٹیکل میں اسمبلی میں موجود ارکان کی اکثریت کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ آرٹیکل 130(7) اس معاملے میں متعلقہ ہے۔ یہ اس طرح پڑھا جائے کہ وزیر اعلیٰ گورنر کی خوشنودی کے دوران عہدہ سنبھالیں گے لیکن گورنر اس شق کے تحت اپنے اختیارات استعمال نہیں کرے گا جب تک کہ وہ اس سے مطمئن نہ ہو کہ وزیراعلیٰ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں کرتے ۔ ایسی صورت میں وہ صوبائی اسمبلی کو طلب کرے گا اور وزیراعلیٰ سے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا مطالبہ کرے گا۔ رابطہ کرنے پر وسیم سجاد نے وضاحت کی کہ وزیراعلیٰ سے جب گورنر کے ذریعہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے کہا جائے تو انہیں ایوان کی کل رکنیت کا اکثریتی ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان فراد کا ووٹ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے جو موجود ہوں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے کل رکنیت کی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ تاہم اعتماد کے ووٹ کے لیے آرٹیکل 130(7) کو صرف موجود اراکین کی اکثریت کا اعتماد درکار ہوتا ہے۔ آرٹیکل130(4) وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے متعلق ہے۔ اس آرٹیکل میں ’کل ممبرشپ کی اکثریت کے ووٹ‘ کا واضح ذکر ہے۔ آرٹیکل 130(4) اس طرح پڑھا جائے کہ (4) وزیر اعلیٰ کا انتخاب صوبائی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت کے ووٹوں سے کیا جائے گا: ’’بشرطیکہ، اگر کوئی رکن پہلی رائے شماری میں اتنی اکثریت حاصل نہیں کرتا تو پہلی رائے شماری میں دو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے اراکین کے درمیان دوسرا پول کرایا جائے گا اور وہ رکن جو موجود اراکین کے ووٹوں کی اکثریت حاصل کرلیتا ہے اور ووٹنگ کا اعلان وزیر اعلیٰ کے طور پر کیا جائے گا: بشرطیکہ مزید اگر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو یا دو سے زیادہ اراکین کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد برابر ہو تو ان کے درمیان مزید رائے شماری اس وقت تک کرائی جائے گی جب تک کہ ان میں سے کوئی ایک موجود اور ووٹ دینے والے اراکین کے ووٹوں کی اکثریت حاصل نہ کر لے۔‘‘ عمران خان کے پنجاب اور کے پی میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے کے بعد اس وقت سیاست کا مرکز پنجاب ہے۔ انہوں نے 23 دسمبر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن پی ڈی ایم نے گورنر پرویز الٰہی سے اعتماد کا ووٹ مانگ کر اس اقدام کو روک دیا۔ پی ایم ایل این کی قیادت میں اپوزیشن نے بھی وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پیش کردیا۔ گورنر نے وزیراعلیٰ پنجاب سے 22 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا تھا لیکن پی ٹی آئی نے اسے نظر انداز کر دیا جس کی وجہ سے گورنر نے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کردیا۔ یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں گیا جس نے جمعہ کو پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کے عہدے پر صرف ان کی ضمانت کے بعد بحال کر دیا کہ وہ کیس کی اگلی سماعت 11 جنوری تک صوبائی اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔

متعلقہ خبریں