Your theme is not active, some feature may not work. Buy a valid license from stylothemes.com

سوال فیصلے کانہیں الیکشن کمیشن کے اختیار کا سوال ہے؟ چیف جسٹس

اسلام آباد(نیوزڈیسک)الیکشن ملتوی کیس،، سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے، یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ‘۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل ہے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’توقع ہے آپ سے بہترین معاونت ملے گی‘۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی‘۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’سیاسی جماعتوں کو فریق بنانےکیلئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا، جمہوریت کے لیے قانون کی حکمرانی لازمی ہے، قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے‘۔اس دوران پیپلزپارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’ملک میں اس وقت انارکی اور فاشزم ہے‘۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے دو ججز نے پہلے فیصلہ دیا‘، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس وقت سوال فیصلے کا نہیں الیکشن کمیشن کے اختیار کا ہے‘۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے، موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عملدرآمد کی ہے‘۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’بینچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں، آپ کا انحصار تکنیکی نکتے پر ہے، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا، اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے، جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں‘۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں، سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے، اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے‘۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے، عدالتی فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، یہ بتائیں کہ کیا 90 روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے؟‘۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں، لوگ آٹے کیلئے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں، تحریک انصاف اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملکی حالات کو بہتر کیا جائے، تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے‘۔پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ’ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے‘، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کی اعلی قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے، پی ٹی آئی کو پہل کرنی ہوگی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے، ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں، آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں‘