اسلام آباد (نیوز ڈیسک) چیف جسٹس عمر بندیال نے کہا کہ عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، قائدین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تو برکت ہوگی، سپریم کورٹ کا 14 مئی کا فیصلہ نہیں بدلے گا ،کل بھی عید نہ ہوئی تو سن لیں گے، سپریم کورٹ کا 14 مئی کا انتخابات کا فیصلہ واپس نہیں ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر بندیال نے ریمارکس دیے کہ سیاسی لیڈران آ رہے ہیں کسی کو تنگی نہ ہو مزید کرسیاں لگا دیں، مولا کریم لمبی حکمت دے تاکہ صحیح فیصلے کر سکیں۔ ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر اور ہمارے جانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔۔چیف جسٹس عمر بندیال نے ریمارکس دیے کہ سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے نیک کام شروع کیا اللہ اس میں برکت ڈالے ،عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی۔پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی عدالت میں پیش ہوئے کہا کہ ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے،ہمیشہ راستہ نکالنے اور آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کی،قوم نے آپ کا فیصلہ قبول کیا ہے دیکھتے ہیں کہ حکومت کا کیا نقطہ نظر ہے، ہماری جماعت آئین کے تحفظ پر آپ کے ساتھ ہے۔ اس پر ۔ چیف جسٹس عمر بندیال نے کہا کہ کیا آپ عدالت کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتے ہیں۔ وقفہ کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ اس موقع پر وکیل درخواست گزار شاہ خاور ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہے اس لیے مناسب ہوگا عدالت تمام قائدین کو سن لے، جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے الیکشن ایک ہی دن ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی قائدین کا تشریف لانے پر مشکور ہوں ،صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے، قوم میں اضطراب ہے اس لیے قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا،عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تو برکت ہوگی۔جسٹس عمر بندیال نے ریمارکس دیے کہ وزارت دفاع کی بھی یہی استدعا ہے کہ الیکشن ایک دن میں ہوں اور درخواست گزار بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن ہوں، اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ اٹھایا لیکن سیاست کی نذر ہوگیا، فاروق نائیک بھی چاہتے تھے لیکن بائیکاٹ ہوگیا اور اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے قائد بھی مذاکرات کو سراہتے ہیں، ن لیگ نے بھی مذاکرات کی تجویز کو سراہا ہے۔ دوران سماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنماء خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اپنے قیادت سے مشورے کے بعد حاضر ہوا ہوں ، ماحول مشکل ہے لیکن 22 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے، الیکشن ہورے ملک میں ایک ساتھ ہونے چاہییں اور انتخابات پر مذاکرات کے لیے پوری طرح تیار ہیں، پارٹی سربراہان کا اجلاس عید کے بعد طلب کر لیا ہے، ریاستی اداروں کا وقت ضائع کرنے کے بجائے سیاست دانوں کو خود بات کرنا چاہیے، عدالت میں بھی اپوزیشن کے ساتھ بغلگیر ہوئے ہیں، میڈیا پر ہونے والے جھگڑے اتنے سنگین نہیں ہوتے جتنے لگتے ہیں۔اس کے علاوہ بی این پی کے ایاز صادق عدالت میں موقف اختیار کیا کہ بی این پی والے چاغی میں تھے اس لیے مجھے پیش ہونے کا کہا گیا، پی ٹی آئی سے ذاتی حیثیت میں رابطہ رہتا ہے آئندہ بھی رہے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فاروق ایچ نائیک نے بھی کہا تھا کہ ایک ساتھ انتحابات ہوں، آصف زرداری کے مشکور ہیں انھوں نے ہماری تجویزسے اتفاق کیا اور ن لیگ نے بھی تجویز سے متعلق بات کی ہے۔
مسلم لیگ (ق) کی طرف طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ مجھے چوہدری شجاعت نے پیش ہونے کا حکم دیا تھا، پہلے دن سے مذاکرت کا عمل شروع ہو۔ ملک میں ایک دن میں الیکشن ہونا چاہیے، یہ بہت سے اختلافات کو ختم کر دے گا، ایک دن الیکشن کرانے کی سپورٹ کرتے ہیں لیکن آپ فیصلہ کریں گے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن اگر ہم کریں گے تو پھر سب کے لیے بہتر ہوگا۔ عدالت کا فیصلہ کسی کو اچھا لگے گا کسی کو برا لیکن سیاسی قائدین کا مشترکہ فیصلہ قوم کو قبول ہوگا۔
قمر زمان کائرہ نے پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ تلخی بہت زیادہ ہے اور وجوہات سے پورا ملک آگاہ ہے، بطور سیاسی جماعت حکومتی اتحاد سے پہلے بات کا آغاز کیا اور جب ملک میں تلخیاں بڑھیں تو بیٹھ کر سیاسی قوتوں کو حل نکالنا پڑا،عدالت کا مشکور ہوں اور کوشش ہے کہ جلد از جلد انتخابات پر اتفاقِ رائے ہو جائے، عدالت اور قوم کو ییقین دہانی کراتے ہیں ملک کے لیے بہتر فیصلے کریں گے۔ جبکہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرچکا ہوں، ایک سیاسی پہلو ہے اور دوسرا قانونی، آئین 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے حوالے سے واضح ہے اور کسی کی خواہش کا نہیں آئین کا تابع ہوں،سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا اور عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں لیکن عدالت نے بردباری، تحمل کا مظاہرہ اور آئین کا تحفظ کیا۔ تلخی کے بجائے اگے بڑھنے کے لیے آئے ہیں اور سیاسی قوتوں نے ملکر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے، آئینی اور جمہوری راستہ انتخابات ہی ہیں، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو انتخابات ہونے چاہییں ن لیگی قیادت نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کر دیں، ہمیں کہا گیا قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔ اپنی حکومت چھوڑنا آسان نہیں تھا اور حکومت ختم ہونے کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے، ن لیگ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد فیصلے سے مکر گئی۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مذاکرات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور مذاکرات آئین سے بالا نہیں ہو سکتے۔ عدالت نے زمینی حقائق کے مطابق 14 مئی کی تاریخ دی، مذاکرات تو کئی ماہ اور سال چل سکتے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل نسلوں سے زیر بحث ہیں۔ حکومت کا یہ تاخیری حربہ تو نہیں ہے البتہ اعتماد کا فقدان ہے۔ حکومت اپنی تجاویز دے جائزہ لیں گے اور عمران خان کی طرف سے کہتے ہیں کہ راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سردار کاشف کی درخواست پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان سمیت الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر رکھا ہے ۔سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواست پر سماعت 4 بجے تک ملتوی کردی گئی ہے ،چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے ، ، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔