اسلام آباد(نیوزڈیسک)اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن میں اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق سماعت ہوئی، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے کیس کی سماعت کی۔
حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل جہانگیرجدون اور سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے، پی ٹی آئی کی جانب سے بابراعوان اور علی نواز اعوان جبکہ جماعت اسلامی کی جانب سے میاں اسلم پیش ہوئے۔
حکومتی وکیل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوکہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا ہے، اسلام آباد انتظامیہ نے یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے کی سفارش کی ہے، الیکشن کمیشن کو آبادی میں اضافے کا معاملہ دیکھنا چاہیے۔
دلائل کے دوران اشتر اوصاف نے بینچ سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنے اس حکمنامے کے مطابق الیکشن کرائیں گے جسے منسوخ کر دیا گیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ شفاف الیکشن کرانے کے لیے زمینی حقائق کو مدنظر رکھیں جس میں تمام لوگوں کی نمائندگی ہو۔
علی نواز اعوان کے وکیل بابراعوان نے دلائل دیے کہ اسلام آباد میں حلقہ بندیوں میں اضافے کے پارلیمنٹ کے بل پر صدر کے دستخط نہیں ہیں لہذا یہ ابھی قانون نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں قانون کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے، آئین کے تحت یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے مطابق الیکشن کا انعقاد کرے۔
بابر اعوان نے دلائل جاری رکھتے ہوۓ کہا کہ حکومت ان بلدیاتی انتخابات میں اسی طرح پارٹی ہے جس طرح ہم الیکشن لڑ رہے ہیں، حکومت انتخابات ملتوی کرانے کے معاملے میں اتھارٹی نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کر چکا ہے اور اس حوالے سے اعتراضات بھی سن چکا ہے، جب الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو جاۓ تو قانون کے مطابق نئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔
جماعت اسلامی کے وکیل حسن جاوید نے دلائل دیتے ہوکہا کہ الیکشن کرانے کی پوری ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے، اس میں وفاقی حکومت کی دخل اندازی کا مطلب الیکشن کمیشن کے اختیارات کو محدود کرنا ہے۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہائی کورٹ نے یونین کونسلز کی تعداد کا جائزہ لینے کا بھی کہا ہے، اس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا اختیار محدود نہیں کیا، ہائی کورٹ کے فیصلے میں ایسی کوئی قدغن نہیں کہ کمیشن دوبارہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔
فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جوکہ اب سنادیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں 31 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیے
پس منظر
خیال رہے کہ 20 دسمبر کو وزارت داخلہ نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اسلام آباد میں یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا تھا جس کے بعد بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کا خدشہ بڑھ گیا تھا۔
تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے یونین کونسل کی تعداد میں اضافے کے بہانے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے اقدام کے ایک روز بعد 21 دسمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے واضح کردیا تھا کہ انتخابات شیڈول کے مطابق 31 دسمبر کو ہی ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل اے (2)-140، آرٹیکل 218، (3) آرٹیکل 219 (ڈی) اور آرٹیکل 222 کے تحت اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے 19 دسمبر 2022 کو جاری کردہ نوٹی فکیشن کے باوجود انتخابات کے عمل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے کیونکہ مذکورہ نوٹی فکیشن اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کے سیکشن 4 (4) کی خلاف ورزی ہے‘۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں، 23 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے یونین کونسلز بڑھانے کا حکومتی فیصلہ مسترد کرنے کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تمام فریقین کو سن کر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن 27 دسمبر کو یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے سے متعلق فریقین کو سن کر فیصلہ کرے
علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو مزید ہدایت دی تھی کہ ووٹرز لسٹوں کی درستی کے لیے دائر درخواستوں پر بھی متاثرہ ووٹرز کو 28 دسمبر کو سنا جائے۔