لاہور(نیوزڈیسک)لاہورہائیکورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دھانی پرگورنرپنجاب بلیغ الرحمان کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر بحال کردیا۔وزیراعلیٰ کی طرف سے اسمبلی نہ توڑننے کی انڈرٹیکنگ علی ظفر نے پڑھ کرسنائی جس میں انہوں نے کہاکہ اگر وزارت اعلیٰ پر بحال کیا گیا تو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس نہیں دوں گا۔تفصیلات کے مطابق جمعہ کو پرویزالٰہی کی درخواست پر جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی۔ پرویزالٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے اسپیکر کو خط لکھا، وزیر اعلی نے اعتماد کا ووٹ لینے سے انکار نہیں کیا۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ اگر گورنر نے اعتماد کے ووٹ کا کہا ہے تو اس پر عملدرآمد تو ہونا چاہیے۔بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف پیش کیا کہ اجلاس بلانے کے اختیارات اسپیکر کے پاس ہیں۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ رولز کے مطابق گورنر کو اعتماد کے ووٹ کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا اختیار ہے، مگر وہ تاریخ کتنے دن کی ہوگی وہ الگ بحث ہے، گورنر کا اختیار ہے کہ وہ جب مرضی ووٹ کا کہے۔پرویز الٰہی کے وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ رولز کے تحت کرسکتا ہے مگر آئین کے تحت نہیں، اجلاس ہوتا تو وزیر اعلی اعتماد کا ووٹ لیتے، وزیر اعلی نے ہوا میں تو اعتماد کا ووٹ نہیں لینا، گورنر کو اختیار نہیں ہے کہ وہ وزیر اعلی کو ہٹائے۔بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا کہ میرا نقطہ یہ ہے کہ پڑوسیوں کی لڑائی میں سزا مجھے کیوں ملے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر ان کے پاس کےاکثریت ہے تو پھر ڈر کس بات کا ہے، یہ سارا بحران ختم ہوسکتا ہے فیصلہ تو اسمبلی نے ہی کرنا ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ میڈیا پر خبرآئی کہ ایک وزیر کی پرویز الہٰی کے ساتھ تکرار ہوئی اور اس نے استعفیٰ دے دیا، کہا گیاعمران خان نےبیان دیا کہ پرویزالہٰی کی کابینہ میں ایک اور وزیرکا اضافہ ہوا اور انہیں پتہ ہی نہیں، ان بنیادوں پرعدم اعتماد اوراعتماد کے ووٹ کا کہا گیا، ان کو یہ نظرنہیں آتا پرویزالہیٰ پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں یہ بیان بھی میڈیا پر آیا، وزیراعلیٰ نے بیان دیا کہ جنرل (ر ) باجوہ کیخلاف جو باتیں کی ہیں وہ عمران خان کو پسند نہیں آئیں۔جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو منحصر ہے، گورنرصاحب ٹی وی کون سا دیکھتے ہیں۔ بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ گورنر نے صرف ایک دن کے نوٹس پر ووٹ لینے کا کہا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ اس کے بعد پھر کیا ہوا؟۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر نے گورنر کے نوٹیفکیشن پر اپنی رولنگ دی۔جسٹس عاصم حفیظ نے استفسار کیا کہ اگر جاری اجلاس میں گورنر نے ووٹ کا کہا تو پھر کیا ہوگا؟۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر پہلے جاری اجلاس کو ختم کرے گا پھر نیا اجلاس ہوگا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ رولز میں ایسا کچھ نہیں کہ جاری اجلاس میں اعتماد کا ووٹ کے لیے نہیں کہہ سکتے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس بات سے اتفاق کرتا ہوں، لیکن اجلاس کے لیے لاجک بھی ہونی چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ مسئلہ مناسب وقت ہے تو وہ حل ہوسکتا ہے، اگر اسپیکر کہہ دے کہ گورنر نے ووٹنگ کا جو وقت دیا ہے وہ مناسب نہیں، اور ووٹنگ کے لیے مناسب وقت دے پھر مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ اسپیکر ہی بتا سکتا ہے میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے کس بات کی سزا دی گئی، ہمارا ایشو ہے کہ وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ یہ ہم دیکھیں گے جو قانون کے مطابق ہوا فیصلہ کریں گے۔بیرسٹرعلی ظفر نے مؤقف پیش کیا کہ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، صوبے میں کابینہ ہے مختلف پراجیکٹس چل رہے ہیں، گورنرمتخب ہو کر نہیں آتا۔اگر وزیر اعلی رہے گا تو کابینہ بھی رہے گی، کابینہ کے بغیر وزیراعلیٰ نہیں رہ سکتا۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کے احکامات میں لکھا ہے کہ اگلے چیف منسٹرتک وزیر اعلی کام جاری رکھیں گے۔ ہم نے آپ کا نقطہ سمجھ لیا ہے، کیا دوسری طرف سے کوئی ہے، اگر گورنر کا نوٹیفکیشن معطل کر دیں تو کیا اسمبلی تحلیل کردیں گے۔جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کے حکم پر عملدرآمد کیے بغیر آپ اسمبلی تحلیل نہیں کرسکتے۔ عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو ہدایات لے کر پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت دس منٹ تک ملتوی کردی۔وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو مزید ایک گھنٹے کی مہلت دے دی اور سماعت 6 بجے تک ملتوی کردی۔جسٹس عابد عزیز نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں یہ لگ رہاتھا کہ آپ کہیں گے کہ اسمبلی کی تحلیل نہیں کریں گے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ ہم آئین کا مینڈیٹ معطل نہیں کرسکتے۔عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ہم گورنر کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہیں تو ایسا نہ ہو آپ اسمبلی تحلیل کردیں، پرویز الہٰی انڈر ٹیکنگ دیں کہ نوٹیفکیشن معطلی پر اسمبلی نہیں توڑیں گے۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس میں کہا کہ ہم آپ کو ایک گھنٹہ اور دے دیتے ہیں آپ مشاورت کرلیں۔ عدالت نے پرویزالہٰی کے وکیل کو انڈر ٹیکنگ دینے کیلئے ایک گھنٹے کی مہلت دے دی۔اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ نے پرویز الٰہی کی ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست سماعت کے لئے مقرر کی، جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت شروع کی تو بینچ کے ایک رکن جسٹس فاروق حیدر نے سماعت سے معذرت کرلی۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے بتایا کہ جسٹس فاروق حیدر پرویز الہی کے وکیل رہے ہیں، معاملہ اہم نوعیت کا ہے، اس لئے ہم آج ہی یہ فائل چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بھیج رہے ہیں، اور درخواست کررہے ہیں کہ درخواست کو آج ہی سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پرویز الہی کی درخواست پر سماعت کے لیے نیا لارجر بینچ تشکیل دے دیا، اور لارجر بینچ میں جسٹس فاروق حیدر کی جگہ جسٹس عاصم حفیظ شامل کیا گیا۔جسٹس عابد عزیز شیخ لارجر بینچ کے سربراہ ہیں، جب کہ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس چوہدری محمد اقبال اور مزمل اختر شبیر شامل ہیں۔واضح رہے کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی کو ڈی نوٹی فائی کردیا گیا تھا، پرویز الٰہی نے گورنر پنجاب کی جانب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے اقدام کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا، اور پرویز الہٰی کی جانب سے درخواست دائر کر دی گئی۔پرویز الٰہی نے اپنی درخواست میں مؤقف پیش کیا کہ گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے وزیراعلیٰ کو خط لکھا ہی نہیں، خط اسپیکر اسمبلی کو لکھا گیا، جب کہ وزیراعلیٰ کو لکھنا چاہئے تھا۔درخواست میں استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا کہ ایک اجلاس کے دوران گورنر دوسرا اجلاس طلب نہیں کر سکتے، گورنر کو اختیار نہیں کہ وہ غیر آئینی طور پر وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرسکیں۔ عدالت گورنر پنجاب کے ڈی نوٹیفائی کرنے کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے۔