یہ دکھ اگلی نسل کی امانت ہیں!

(گزشتہ سے پیوستہ) ہم نے تواپنے رب کی اس دھرتی پرسینے پر ہاتھ رکھ کرہزاروں کے مجمع میں کشمیرکے وکیل ہونے کادعویٰ کیاتھا،کشمیرکی آزادی کیلئے ہر جمعہ کی دوپہرکوایک گھنٹے کے علامتی مظاہرہ کااعلان کیاتھا،لیکن ہواکیا؟چندمنٹ کافوٹوسیشن کرکے وکیل کہاں چھپ گیا؟بلکہ کشمیرکے بارے میں جہاد کانعرہ بلندکرنے سے بھی منع کر دیا تھا۔ کیاپاکستان کومدینہ ریاست بنانے کا دعویٰ کرنے سے پہلے یہ سوچانہیں تھاکہ مدینہ کو اسلامی اور فلاحی ریاست بنانے کیلئے بدراوراحدکے علاوہ بھی کئی دیگر معرکوں میں میرے آقانبی اکرمﷺکوخود عملی جہادکرناپڑا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہاکہ میں اپناغم اوردردکس سے بیان کروں؟
اس امانت میں صرف دردکااحساس ہی نہیں وقت کے موسموں کے بدلنےکی آس بھی ہے۔ مستنصرحسین تارڑکےخانہ بدوش کاآخری پیرا گراف پڑھیے:میں سینکڑوں فلسطینیوں سےمل چکا تھامگراحمدایک مختلف انسان تھا۔وہ حقارت سے اسرائیل کاذکرکرتا تھابلکہ ایک سپاٹ اور کاروباری اندازمیں۔وطن اس کیلئے ایک اغوا شدہ بچہ تھاجو جذباتی ہونے سے نہیں مل سکتاتھا۔اس کی تلاش میں اس کے نقش نہیں بھولنے تھے اورایک سردمنصوبہ بندی سے خرکارکیمپ تک پہنچناتھا۔ یہی نقش ہم بھولتے جارہے ہیں۔یہ نقش کیسے یاد رہتے ہیں؟ ماؤں کی لوریاں انہیں تازہ رکھتی ہیں، نصاب تعلیم تذکیرکاکام کرتاہے،ادیب اور شاعر کاقلم اسے سنوارتارہتاہے۔ ماؤں کے پاس اب وقت نہیں، باپ کی جانے بلا،فلسطین اورکشمیرکیاہے؟ نصاب تعلیم اجنبی ہوچکااورادیب وشاعر گونگے ہوچکے۔ ایک یلغارہے جس نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا۔فلسطین کی بات کرنااب دقیانوسی روّیہ ہے کہ عرب جوخودکوفلسطین کاوکیل سمجھتے تھے، نہ صرف اس کامقدمہ ہارچکے بلکہ خود کو اس وکالت نامے سے آزادکرکے اس کانام بھی سننا انہیں گوارہ نہیں۔ ان کی ترجیحات تواپنے اقتدار کو طول دینا،قومی دولت کواغیارکے خزانوں میں محفوظ کرناکہ مشکل وقت میں کام آئے گی۔ انہیں صدام اورمعمرقذافی کے عبرتناک انجام سے ڈرایا جاتاہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ جب بھیڑکو ذبح کر دیاجائے تواس کی بلاسے کہ اس کی بوٹیوں کا سائزکیاہوگایاپھر اس کے گوشت کاقیمہ بنایا جائے گا۔ وہ ممالک جوخودکوجمہوریت کی ’’ماں‘‘ کہتے ہیں،انہوں نے اپنے ہاتھوں مصر اور الجزائرکے جمہورکاگلاگھونٹ دیا ۔مرسی حکومت کے ساتھ انسانی حقوق کے علمبرداروں کاسلوک یقیناً آئندہ نسلوں کاسرجھکادینے کیلئے کافی ہوگا۔ ہزاروں سال پرانی بابل ونینواکی تاریخ کے حامل عراق کوتاراج کرکے تاتاریوں کے مظالم کوبھی شرمندہ کردیا۔ عرب بادشاہت کے نظام پرسب ہی معترض ہیں لیکن ان کا استقبال ’’ریڈکارپٹ‘‘ پرکرتے ہوئے جمہوریت گنگ ہوجاتی ہے۔ مغرب میں شخصی آزادیاں ایک چیلنج بن چکی ہیں، یہاں کسی بھی خاتون کوبرہنہ ہونے کااختیارتوہےلیکن اپنی مرضی سے اسکارف نہیں پہن سکتی۔ مذہب کی توہین کرتےہوئے لمحہ بھرکیلئے شرم محسوس نہیں کرتے۔ کون نہیں جانتاکہ قذافی کو امریکا اورمغربی ممالک کے ساتھ اقتصادی روابط نہ رکھنے کی سزا دی گئی، بظاہرتولیبیا پر یہ کہہ کرحملہ کیا گیا کہ وہاں کے عوام کوقذافی سے بچایاجارہاہے لیکن حقیقت یہ تھی کہ معمرقذافی یورپی ممالک اور امریکاکواپنے اقتصادی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتے تھے بلکہ وہ عالمی منڈی میں تیل کے بدلے ڈالرکے مقابلے میں سونے کاسکہ چلانے کیلئے کوشاں تھے اورتمام تیل پیداکرنے والے ممالک کو اس فارمولے پرقائل کرنے کی کوششوں میں کامیاب ہورہے تھے۔قذافی کی کوشش تھی کہ وہ چین ، ترکی اورایشیائی ممالک سمیت ان ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلق رکھیں جو امریکاکے اثرسے پاک تھے۔قذافی کے خلاف یہ بات اڑائی گئی کہ ان کی ایئرفورس بن غازی میں عوامی مظاہروں کے خلاف استعمال ہورہی ہے،الجزیزہ ٹی وی پر یہ خبربھی چلی کہ بن غازی میں بمباری کے نتیجے میں50ہزار لوگ مارے گئے، اگرچہ یہ خبرواپس لے لی گئی لیکن اس خبر کے نتیجے میں لیبیاکے اوپرنوفلائی زون قائم کر دیا گیا۔ بعدمیں اسی نوفلائی زون کوتوڑتے ہوئے بمباری شروع کردی گئی اورقذافی کے گھرپربمباری کرکے ان کے ایک بیٹے کوبچوں سمیت شہید کر دیا گیا۔اس موقع پرپوری عرب اور اسلامی دنیا دیکھتی رہ گئی اورکچھ نہ کرسکی۔یہ جہاں امریکا کی جانب سے لیبیاکے عوام کوبچانے کیلئے کھلی بدمعاشی اورجارحانہ مداخلت تھی وہاں تمام مسلمان ملکوں کے سربراہوں کوان کی اوقات بتادی گئی۔مغرب کی خاموشی،آج ان کے ضمیروں پر بوجھ بن کرتازیانے برسارہی ہے۔اپنے اس جرم کا اعتراف خودمجھ سے مغرب کے کئی دانشوروں نے کیاہے۔ بالآخربھارت کا اقلیتوں سے غلیظ،متعفن آمریت کے سلوک کے بارے میں 75کانگرس امریکی ارکان نے جوبائیڈن کوخط لکھ کراس کی جمہوریت پر تھوک دیاہے لیکن کیا جمہوریت کے علمبرداروں کے کانوں پرکوئی جوں رینگی؟ سیدعلی گیلانی نے اپنی سوانح حیات’’وولرجھیل کے کنارے‘‘ میں دل کے زخم دکھانے سے تو گریز کیالیکن بین السطور میں چشم کشا منظرناموں کی نشاندہی کردی ہے۔ بھارتی بنئے کے سینے پربیٹھ کر اپنے لاکھوں چاہنے والوں اورسرفروشوں کے درمیان علی الاعلان یہ دعویٰ رقم کردیا کہ’’ہم ہیں پاکستانی،پاکستان ہماراہے‘‘لیکن ہم نے کشمیر کا وکیل بن کرکھلا دھوکہ دیا۔کیاکشمیریوں کا قصور بھی یہ ہے کہ وہ تاریخ ِعالم میں ان چند پرعزم، بلندحوصلہ، حق پرست،حریت پسند اور جذبہ اِستقلال سے سرشار اقوام میں سرِ فہرست ہیں جو 8 لاکھ سے زائد بھارتی درندوں کے ظلم سے نہ تو خوفزدہ ہیں اورنہ ہی ان کی جارحیت کے سامنے سرتسلیم ِخم کیا ہے ۔ 1947ء سے لے کر آج تک ان پر زندگی تنگ کردی گئی ہے ۔گمنام اجتماعی قبریں، بے گناہ شہدا،معصوم یتیم، بیوہ ونصف بیوہ عورتیں،نابینا بنادیئے گئے بچے ، جوان ، معذور و بےسہارا بوڑھےاور لہولہان وادی کشمیربھارتی مظالم کامنہ بولتا ثبوت ہیں لیکن وہ آج بھی اقوام عالم کے سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ جوان دنوں بڑی طاقتوں کی ایک لونڈی کا کرداراداکررہا ہے، سے اپناوہ جائزحق مانگ رہے ہیں جواس ادارے میں اقوام عالم کے اتفاق رائے سے دنیاکی چندبڑی طاقتوں کے بطورضامن،ان کودینے کاوعدہ کیا تھا۔ آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم کشمیری خاموش زبانوں، نابینا آنکھوں،بہتے زخموں،لٹی عزتوں اوربے بس ہاتھوں میں جوان لاشے اٹھائے ضمیر ِعالم کوجھنجھوڑنے کی ناکام مگر پر امید کوشش میں مصروف وشکوہ کناں ہیں۔ 1948ء میں اقوامِ متحدہ نے اس دن انسانی حقوق کے تحفظ اورآگاہی کیلئے48ممالک کی رضامندی سے30دفعات پرمشتمل عالمی منشور جاری کیاتھا۔ اس منشورکے تحفظ ،بہتری اورعمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے ایک مستقل کمیشن برائے انسانی حقوق بھی قائم کیاگیاتھا-انسانی حقوق کے اس عالمی منشورمیں بنیادی انسانی حقوق مثلاانسانی آزادی، مساوی حیثیت،آزادانہ نقل وحرکت، آزادی اظہار،باوقار زندگی،سماجی تحفظ کا حق، مذہبی آزادی اورتشدد، ظلم وستم،غیرانسانی اور توہین آمیزسلوک یاسزاکانشانہ نہ بنائے جانے کو یقینی بنایا گیاہے-گوکہ اِس دن دنیابھرمیں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلندکی گئی،مگرسوا ئے پاکستان ودیگرچندممالک کے، اقوامِ عالم نے کشمیرو فلسطین میں ہونے والی اندوہ ناک انسان دشمنی کوہمیشہ کی طرح پسِ پشت ڈالے رکھاہے۔(جاری ہے)