اسلام میںاقلیتوں کے حقوق

(گزشتہ سے پیوستہ) کئی دن کے بحث ومباحثے کے بعدصحابہ کرامؓ کوحضرت عمرؓفاروق کی رائے سے اتفاق کرنا پڑا اوراس طرح مفتوحہ علاقوںکی تمام اراضی سابقہ مالکان کے پاس رہنے کاقانون تشکیل پا گیا کہ یہ اراضی نسل درنسل منتقل ہوتی رہے گی اوروہ اپنی مرضی سے اس کی خریدوفروخت بھی کرسکتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان کومالکانہ حقوق دیئے گئے اورحکومت کوبھی ان اراضی کوواپس لینے کاکوئی اختیارنہیںتھاتاوقتیکہ متعلقہ فریق کو اس کی مرضی کے مطابق اس کا معاوضہ ادا کر دیا جائے۔
حضرت عمرفاروقؓ کے زمانے میںجب کوفہ آبادہواتوشہرمیںایک جامع مسجدکی تعمیر میں حیرہ کے خستہ وکھنڈرمحلات کاملبہ استعمال کیا گیا۔ ان محلات کاکوئی وارث نہ تھالیکن زمین ذمیوںکی تھی جس کیلئے اس ملبے کی قیمت ذمیوںکے جزیہ سے منہاکرکے عدل وانصاف کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی گئی۔تاریخ میںمفتوحہ اقوام سے جو معاہدے نقل کئے گئے ہیں ان میںاقلیتوںکومکمل مذہبی آزادی کی سرکاری ضمانت دی گئی تھی۔ جس طرح اسلامی بیت المال کسی مسلمان کے معذور ہو جانے یا بوجہ عمر رسیدگی اور غربت کے محتاج ہو جانے پر کفالت کی ذمہ داری لیتا ہے اسی طرح اسلامی بیت المال پر ایک غیر مسلم کے معذور ہونے یا عاجز ہونے کی صورت میں اس کی کفالت لازم ہے۔ کتاب الاموال میں ابوعبید نے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے :رسول اللہﷺ نے یہودیوں کے ایک گھرانہ کو صدقہ دیا اور حضورﷺ کے وصال کے بعد بھی وہ انہیں دیا جارہا ہے۔عہد صدیقیؓ میں شام کے مفتوحہ علاقوںمیںمعاہدے کی ایک مثال حضرت خالد بن ولید ؓ نے اہل حیرہ کوجو امان نامہ لکھ کر دیا تھا اورشام کے پادری کوایک تحریری معاہدے میںاس کی مکمل ضمانت دی گئی : کسی بھی حال میںان کی خانقاہیں یاگرجا گھر قطعاً مسمار نہیں کئے جائیںگے اوران کو تہواروںپرناقوص بجانے اور صلیبیں اٹھاکرجلوس نکالنے کی بھی مکمل آزادی ہو گی اورایک دوسری روایت کے مطابق نماز کے اوقات کالحاظ کرتے ہوئے وہ جب چاہیںناقوص بجاسکتے ہیں۔ ان کے لیے یہ حق بھی رکھا ہے کہ جو کوئی شخص بڑھاپے کے سبب ازکار رفتہ ہو جائے یا اس پر کوئی آفت نازل ہو جائے، یا وہ پہلے مال دار تھا پھر فقیر ہو گیا یہاں تک کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس کو صدقہ و خیرات دینے لگے، تو اس کاجزیہ معاف کر دیا جائیگا اور اسے اور اس کے بال بچوں کو ریاست کے بیت المال سے خرچ دیا جائے گا۔اگرکوئی ذمی مر جائے اور اس کے حساب میں مکمل جزیہ یا جزیہ کا بقایا واجب الادا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثا پر اس کا بار ڈالا جائے گا۔کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔ امام ابو یوسف ؒ لکھتے ہیں : اگر اس پر جذیہ واجب ہو تو اس کی کل یا کچھ ادائیگی سے قبل وہ مرجائے تو اس پر بقیہ واجب الادا جزیہ وارثوں سے وصول نہیں کیا جائیگا کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔ (کتاب الخراج : ۱۳۲) اسی طرح حضرت ابوعبیدہ ؓنے بھی شام کے بعض مفتوحہ علاقوںغیرمسلموںکومکمل مذہبی آزادی کاتحریری معاہدہ کیاجوآج بھی تاریخی کتابوں میں موجودہے اورخلفائے راشدین کے دورِ حکومت میںان معاہدوںکی مکمل پاسداری کی گئی اوران معاہدوںمیںکسی تبدیلی کاتصوربھی نہیںکیاگیا۔ امام ابویوسف ؒ نے ان معاہدوںکی تصریح کی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ، عمرفاروقؓ،عثمان ؓ غنی اورعلی المرتضیٰؓ کے ادوارمیںان معاہدوںکی مکمل پاسداری کی گئی بلکہ ان مذہبی خانقاہوںکے پجاری ،راہبوں اوردیگر عہدیداروںکے ساتھ ساتھ ان کے اوقاف کوبھی برقراررکھااوران عہدیداروں کو سرکاری خزانے سے باقاعدہ وظائف جاری کئے گئے۔اسی طرح مصرمیں مفتوحہ علاقوں میں ان مذہبی علاقوںکے ساتھ جس قدراراضی وقف تھی ،نہ صرف ان کوبحال رکھابلکہ ان عبادت گاہوں کی تزئین وآرائش کیلئے باقاعدہ سرکاری معاونت بھی کی گئی۔مقریزی کے زمانے میںایک گرجاگھرکے ساتھ ڈیڑھ ہزارفدان اراضی وقف تھی جس کی کاشت پربھی کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا ۔ مسلمانوںکے اس سنہرے ادوار میںنہ صرف ان کی مذہبی عبادت گاہوںکی مکمل حفاظت کی گئی بلکہ بہت سے نئے گرجاگھر،آتش کدے اورمندر تعمیر ہوئے جس میںبیشتر سرکاری اراضی استعمال کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ اس طرح اقلیتوںکے حقوق کے بارے میںاللہ کے ہاں جوابدہی کاخوف بھی ان پرطاری رہا اورعدل وانصاف کی وہ درخشاںمثالیںقائم کیں کہ جس کی مثال آج کے روشن خیال وتہذیب یافتہ ممالک میںبھی نہیںملتی۔ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ولید بن عبدالملک اموی نے دمشق کے کلیسہ یوحنا کو زبردستی عیسائیوں سے چھین کر مسجد میں شامل کر لیا۔ بلاذری کے مطابق : جب حضرت عمر بن عبدالعزیز تختِ خلافت پر متمکن ہوئے اورعیسائیوں نے ان سے ولید کے کلیساپر کیے گئے ظلم کی شکایت کی تو انہوں نے اپنے عامل کو حکم دیا کہ مسجد کا جتنا حصہ گرجا کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اسے منہدم کرکے عیسائیوں کے حوالہ کر دو۔ (فتوح البلدان : ۱۵۰) راجہ داہرکے ظلم کے خلاف جب محمدبن قاسم نے سندھ کوفتح کیاتوسب سے پہلے تمام ادیان کے پیروکاروںاورہندوؤںکومکمل امان اورمذہبی آزادی کااعلان کیاگیا۔الغرض اسلام نے اقلیتوں کے جان ومال اورمذہبی اقدارکانہ صرف تحفظ کیابلکہ مسلم اخوت ورواداری کی یہ عالم تھا کہ جب محمدبن قاسم کوسندھ سے واپس بلایا گیا تواس وقت بیشترہندؤوںنے اپنے مندروں و عبادت گاہوں اور گھروںمیںمحمدبن قاسم کے حسنِ سلوک کی وجہ سے اس کے بت سجارکھے تھے۔ (جاری ہے)