دینی مدارس کے نصاب ونظام میں اصلاح

مختلف حوالوں سے یہ بحث و مباحثہ دیکھ کر مجھے قرنِ اول کا ایک مباحثہ یاد آگیا ہے جو حدیث و تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب مسجد نبویؐ کو شہید کر کے اس کی جگہ پختہ اور وسیع مسجد تعمیر کرنے کا اعلان کیا تو اس پر چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں اور بعض حضرات کی طرف سے یہ اشکال سامنے آیا کہ یہ مسجد جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دستِ مبارک سے بنوائی ہے اور جس کی دیواریں اور چھت جناب رسالت مآبؐ کے مبارک ہاتھوں سے ڈالے گئے تھے، اسے آخر کس طرح شہید کیا جائے گا؟ یہ عقیدت و محبت کی بات تھی جو اپنے دائرہ میں بالکل درست تھی، لیکن دوسری طرف ضرورت کا دائرہ اس سے مختلف تھا کہ آبادی میں اضافہ اور نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے مسجد میں توسیع ناگزیر ہو گئی تھی اور اردگرد پختہ اور مضبوط عمارتوں کے درمیان یہ کچی مسجد عجیب سی محسوس ہونے لگی تھی۔ اسی وجہ سے حضرت عثمانؓ نے پرانی مسجد کو گرا کر نئی، وسیع اور پختہ مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ایک طرف محبت، عقیدت اور تقدس و احترام کی بات تھی اور دوسری طرف اجتماعی ضرورت کا مسئلہ تھا، اس لیے حضرت عثمانؓ نے ایک روز خطبۂ جمعہ میں لوگوں کے تحفظات کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا کہ ’’لقد اکثرتم‘‘ تم نے بہت زیادہ باتیں شروع کر دی ہیں، لیکن میں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کا گھر یعنی مسجد تعمیر کی، اللہ تعالیٰ اس کا اسی طرح کا گھر جنت میں بنائے گا۔ چنانچہ سیدنا حضرت عثمانؓ نے ان تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے پرانی مسجد کو شہید کر کے وسیع بنیادوں پر پختہ مسجد تعمیر کر دی۔ جبکہ اس کے بعد سے مختلف ادوار میں مسجد نبویؐ کی عمارت میں توسیع کے ساتھ ساتھ اس کی پختگی اور تزئین میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور آج یہ دنیا کی عظیم الشان عمارتوں میں شمار ہوتی ہے۔ مجھے دینی مدارس کے نصابِ تعلیم کے حوالہ سے ہونے والا یہ مباحثہ بھی کچھ اسی طرح کا محسوس ہوتا ہے۔ ایک طرف اکابر کے ساتھ محبت و عقیدت کا اظہار ہے جو اپنی جگہ درست اور قابلِ قدر ہے جبکہ دوسری طرف عصری تقاضوں اور ضروریات زمانہ مسلسل دامن گیر ہیں جن سے کوئی مفر نہیں ہے اور ہم کسی طرح بھی انہیں نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمارے ہاں احناف میں بہت سے مسائل میں متاخرین نے متقدمین کے اقوال و آرا سے اختلاف کرتے ہوئے الگ موقف اختیار کیا ہے جو ظاہر ہے کہ اپنے زمانہ کے حالات و ضروریات کے تناظر میں تھا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ متقدمین سے الگ موقف اختیار کرنے والے فقہاء کرام کے دور کے حالات کا تسلسل کا اب تک قائم رکھنا ضروری نہیں ہے کیونکہ حالات بدلتے رہتے ہیں اور ضروریات میں تغیر و تنوع کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے، اس لیے اگر کسی مسئلہ میں آج کے حالات و ضروریات متاخرین کی بجائے متقدمین کے موقف کی طرف واپس جانے کا تقاضہ کر رہے ہوں تو ہمیں اس میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اسے مسئلہ بنا لینا چاہیے۔ حنفیت علمی بحث و مباحثہ کے نتیجے میں تشکیل پانے والی فقہ کا نام ہے اور اختلافِ رائے اس کا سب سے بڑا حُسن ہے، بعد کے ادوار میں اس فقہ پر نظر ثانی یا اس کی تدوینِ نو کی ضرورت پیش آنے پر بھی اجتماعی علمی بحث و مباحثہ کی طرز ہی اختیار کی گئی تھی، جیسا کہ ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ اور ’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘‘ کی صورت میں موجود ہے۔ اس لیے ہمیں علمی بحث و مباحثہ کی ضرورت سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے۔ ضرورتِ زمانہ اور عصری تقاضوں کو محسوس کرنا اور انہیں اپنے نظام کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا خود ہمارے اکابر و اسلاف کی روایت چلا آرہا ہے حتیٰ کہ درسِ نظامی کا مروجہ نصاب اپنے دور کے عصری تقاضوں کو قبول کرنے کے نتیجہ میں ہی تشکیل پایا تھا، مثلاً فارسی زبان کا دینی حوالے سے ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ایران و فارس کی زبان تھی اور اسے درسِ نظامی میں شامل کرنے بلکہ اس کی بنیاد بنانے کی وجہ یہ تھی کہ مغل سلطنت کے دور میں برصغیر کی دفتری زبان فارسی تھی اور عدالتی زبان بھی فارسی تھی، اسے سیکھے بغیر ہم ملک کے نظام میں شریک نہیں ہو سکتے تھے اور نہ ہی ملی مقاصد میں اس سے استفادہ کر سکتے تھے، اس لیے فارسی زبان کو درسِ نظامی کا جزوِ لازم بنایا گیا۔ مگر آج کی صورتحال یہ ہے کہ فارسی نہ ملک کی دفتری زبان ہے اور نہ ہی عدالتی زبان ہے، دونوں شعبوں میں اس کی جگہ انگریزی نے لے لی ہے، اس لیے ملک کے دفتری اور عدالتی نظام میں شرکت کے لیے آج انگریزی زبان سیکھنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح مغلوں کے دور میں علماء و طلبہ کے لیے فارسی زبان سیکھنا ضروری ہوگیا تھا۔ آج فارسی کی ضرورت ہمارے دینی حلقوں میں صرف اس قدر باقی رہ گئی ہے کہ فارسی زبان میں لکھے گئے اس وسیع دینی لٹریچر کے ساتھ ہمارا تعلق باقی رہے جو اس زبان میں ہمارے بہت سے بزرگوں نے مختلف اداروں میں تحریر فرمایا تھا اور اسلامی علوم کا ایک معتد بہ ذخیرہ اس زبان میں موجود ہے، اس کے علاوہ فارسی زبان کا اور کوئی مصرف ہمارے ہاں نہیں ہے۔ اس کے باوجود جائز ضرورت کی حد تک فارسی زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ( جاری ہے )
دینی مدارس کے نظامِ تعلیم اور نصاب میں ضروریات زمانہ کے تناظر میں ردوبدل اور اضافہ کے بارے میں ایک عرصہ سے بحث جاری ہے جو اس لحاظ سے بہت مفید اور ضروری ہے کہ جہاں موجودہ نصاب کی اہمیت و افادیت کے بہت سے نئے پہلو اجاگر ہو رہے ہیں، وہاں عصرِ حاضر کی ضروریات کی طرف بھی توجہ مبذول ہونے لگی ہے اور صرف توجہ نہیں بلکہ بہت سے اداروں میں عصری تقاضوں کو دینی مدارس کے نصاب و نظام کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا کام بھی خوش اسلوبی سے جاری ہے جس میں سر فہرست جامعۃ الرشید ہے اور اس کے علاوہ بہت سے دیگر دینی تعلیمی ادارے بھی اس کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔