دینی مدارس کا معاشرتی کردار

آج دینی مدارس اور درسگاہیں دنیا بھر کی اعلیٰ دانش گاہوں، اداروں، لابیوں اور میڈیا سنٹروں کا موضوع بحث ہیں اور معاشرہ میں ان کے کردار اور ضرورت کے بارے میں مختلف باتیں کہی جا رہی ہیں۔ یہ درسگاہیں جنہیں دینی مدارس کے نام سے یاد کیا جاتا ہےاس سطح پر موضوع گفتگو ہیں کہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ جیسے نشریاتی ادارے ان کے بارے میں پروگرام پیش کرتے ہیں، ایمنسٹی اور اقوام متحدہ کے ادارے ان کے بارے میں رپورٹیں جاری کرتے ہیں، بین الاقوامی پریس ان مدارس کے کردار کو موضوع بحث بنا رہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ امریکہ کی کانگریس میں گزشتہ دنوں یہی دینی مدارس زیربحث آئے ہیں اور ان کی بندش کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان مدارس کے حقیقی کردار سے آپ حضرات بھی واقف ہوں اور اسی خیال سے چند معروضات پیش کر رہا ہوں۔ان مدارس پر الزام ہے کہ یہ نئی پود کو مستقبل کی بجائے ماضی سے جوڑ رہے ہیں اور ترقی اور پیش رفت کی بجائے پسپائی کا سبق دے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک اور بات بھی کہی جاتی ہے کہ ان مدارس سے تیار ہونے والی کھیپ کی معاشرہ میں کھپت نہیں ہے اور یہ بیکاروں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کر رہے ہیں جو سوسائٹی کے کسی شعبے میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ان مدارس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔الزامات کی فہرست بڑی لمبی ہے اور شکایات کا سلسلہ بہت طویل ہے۔ ان میں سے صرف دو الزامات کا آج جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ یہ مدارس آج کی تہذیب اور ورلڈ کلچر کے خلاف نئی نسل کی ذہن سازی کر رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ ان مدارس کے تیار کردہ افراد کی معاشرہ کے کسی شعبہ میں کھپت نہیں ہے۔ جہاں تک ورلڈ کلچر اور جدید تہذیب کے خلاف نئی پود کی ذہن سازی کا تعلق ہے میں اس الزام کو قبول کرتا ہوں اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آج کے ورلڈ کلچر کو جو ویسٹرن سولائزیشن کی جدید شکل ہے تسلیم نہیں کرتے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے دینی مدارس کا بنیادی مشن ہی یہ ہے کہ نئی پود کو ویسٹرن سولائزیشن کا شکار ہونے سے بچایا جائے اور صرف اپنے نوجوانوں کو نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو ہم اس ورلڈ کلچر سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کلچر نے انسانیت کو تباہی کے کنارے تک پہنچا دیا ہے اور انسانی اخلاق و اقدار اور رشتوں کے تقدس کا جنازہ نکال دیا ہے۔ میں ان مغرب والوں سے پوچھتا ہوں کہ یہ ہمیں کس کلچر اور تمدن کی دعوت دیتے ہیں اور کس سولائزیشن کو ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ ان کے ورلڈ کلچر نے آج انسانی سوسائٹی کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ امریکہ اور یورپ کے کم و بیش سب ملکوں میں ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر جائز قرار پا چکا ہے۔ہم اس کلچر کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ کلچر انسانیت کی تباہی کا کلچر ہے، انسانی اخلاق و اقدار کی بربادی کا کلچر ہے اور خدا کی لعنت اور عذاب کو دعوت دینے والا کلچر ہے جس کے خلاف جدوجہد کو ہم اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ بحمد اللہ تعالیٰ دینی مدارس یہی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ دوسرا الزام یہ ہے کہ مدارس جو طبقہ پیدا کر رہے ہیں اس کی معاشرہ میں کھپت نہیں ہے اور یہ معاشرہ کی کوئی ضرورت پوری نہیں کر رہے اس لیے ان مدارس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ الزام قطعی طور پر غلط ہے اور میں آپ حضرات کی خدمت میں یہ جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مدارس معاشرہ کی کون سی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں اور ان مدارس کے پیدا کردہ افراد سوسائٹی کے کون سے خلا کو پر کر رہے ہیں۔ اس کے لیے میں حکومت پاکستان کے ایک اعلان کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جو کم و بیش تین سال قبل وفاقی محتسب اعلیٰ کے ایک حکم کے بعد کیا گیا تھا کہ حکومت ملک بھر کے پرائمری اسکولوں میں قرآن کریم کی لازمی ناظرہ تعلیم کا انتظام کرے گی۔ حکومت نے سرکاری سطح پر پرائمری سکولوں میں قرآن کریم کی لازمی ناظرہ تعلیم کی ذمہ داری قبول کی تو ہم بہت خوش ہوئے کہ سب سے نچلی اور عمومی سطح پر ہی سہی مگر حکومت نے اس سلسلہ میں کسی ذمہ داری کا احساس تو کیا ہے،لیکن تین چار سال گزر جانے کے باوجود ملک کے پرائمری اسکولوں میں آج تک اس کا انتظام نہیں ہو سکا ۔اس کی وجہ محکمہ تعلیم کے ذمہ دار حضرات یہ بتاتے ہیں کہ ملک بھر میں پرائمری اسکولوں کی جو تعداد ہے اگر فی اسکول دو استاذ بھی مہیا کیے جائیں تو اتنی تعداد میں قرآن کریم کے اساتذہ مہیا کرنا مشکل ہے اور اگر استاذ کہیں سے مل بھی جائیں تو انہیں تنخواہ دینے کے لیے بجٹ میں رقم نہیں ہے اس لیے یہ منصوبہ ناقابل عمل ہے۔دوسری طرف اس بات کا جائزہ بھی لے لیجئے کہ ملک میں مسجدوں کی تعداد پرائمری اسکولوں سے کم ہے یا زیادہ؟ میرا اندازہ ہے کہ ملک بھر میں مساجد اگر بہت زیادہ نہیں تو مجموعی طور پر پرائمری اسکولوں سے پانچ گنا زیادہ تعداد میں تو یقیناً ہوں گی۔ ان مساجد میں خطیب فراہم ہو رہے ہیں، امام مل رہے ہیں، قرآن کریم پڑھانے والے استاذ مل رہے ہیں۔ رمضان میں صرف حافظ ہی نہیں بلکہ سامع بھی ملے گا۔ حتیٰ کہ بعض علاقوں میں حافظوں کی تعداد مساجد کی تعداد سے بڑھ جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کھیپ کہاں سے آرہی ہے؟ یہی دینی مدارس ہیں جو معاشرے کی اتنی بڑی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں۔ جس کام کی ذمہ داری قبول کرنے سے حکومت نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں اس قوی ضرورت کو یہ دینی مدارس پورا کر رہے ہیں۔اور پھر یہ بھی دیکھیے کہ ان دینی مدارس کے بجٹ کو سرکاری تعلیمی اداروں کو دیے جانے والے بجٹ کے ساتھ کوئی نسبت ہے؟ آپ حضرات تصور بھی نہیں کر سکتے کہ قرآن کریم پڑھانے والے استاذ کتنے تھوڑے وظیفے پر کتنی لمبی ڈیوٹی دیتا ہے؟ کتنی شرم کی بات ہے کہ جو طبقہ اتنے تھوڑے بجٹ کے ساتھ، اس قدر معمولی وظیفوں پر اور انتہائی صبر و ایثار کی فضا میں قوم کی اتنی بڑی ضرورت کو پورا کر رہا ہے اور اتنے بڑے خلا کو پر کیے ہوئے ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ معاشرے میں اس کی ضرورت نہیں ہے اور دینی مدارس کے پیدا کردہ افراد کی سوسائٹی میں کوئی کھپت نہیں ہے۔ اس مختصر جائزے کے بعد ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب دینی مدارس کے خلاف اتنی اعلیٰ سطح پر باتیں ہوتی ہیں کہ امریکہ اور اقوام متحدہ سے مطالبے آنے لگتے ہیں اور حکومتیں دھمکیاں دینے اور خوف زدہ کرنے پر اتر آتی ہیں تو بعض دوست پریشان ہو جاتے ہیں کہ ان مدارس کا کیا بنے گا؟ میں ان سے عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مدارس کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا اور یہ اسی طرح اپنا کام کرتے رہیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس لیے کہ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ قرآن کریم کی قیامت تک حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ قرآن کریم کی حفاظت کرے گا تو اس سینے کی بھی حفاظت کرے گا جس میں قرآن کریم موجود ہے اور اس سسٹم اور نظام کی حفاظت بھی کرے گا جو قرآن کریم کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ نیت صحیح رکھیں، جذبہ خالص رکھیں اور اپنی ہمت و استطاعت کے مطابق جو کچھ ہم سے ہو چکے کام کرتے رہیں۔ نتائج اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہیں اور اس نے خود پر صحیح بھروسہ رکھنے والوں کو پہلے بھی کبھی مایوس نہیں کیا اور آئندہ بھی کبھی نہیں کرے گا۔