نیامفاہمتی آرڈی نینس

قرون وسطی میں بصرے کاایک چور عباس بن الخیاطہ بہت نامورہوا
قرون وسطی میں بصرے کاایک چور عباس بن الخیاطہ بہت نامورہوا،اس کی وارداتوں نے بصرہ اوراس کے اطراف میں ایک عرصے تک اہل ثروت کے ہوش اڑائے رکھے۔ پولیس نے لاکھ جتن کئے مگرعباس کسی طوربھی ہاتھ نہ لگا۔ ایک روزاپنی ہی معمولی سی غفلت کے نتیجے میں گرفتار ہواتواسے بصرے کی جیل میں یوں زیر حراست رکھا گیاکہ چوبیس گھنٹے سوامن وزنی بیڑیوں میں جکڑارہتا۔عبا س کی گرفتاری کے بعد کچھ عرصے تک توبصرے میں امن رہامگرایک روز نواحی شہرایلہ میں ایک بہت بڑی واردات ہوگئی جس میں شہرکے ایک نامی گرامی تاجرکے گھرسے لاکھوں کے جواہرات چرالئے گئے۔متاثرہ تاجر کا گھرکسی طوربھی ایک قلعے سے کم نہ تھا جہاں واردات کاتصورہی محال تھا۔نتیجہ یہ کہ گویا بصرے کی پوری چیمبرآف کامرس دہل گئی۔ متاثرہ تاجرنے بصرے میں تمام تاجروں کے ساتھ ایک میٹنگ کی اوراگلے روزاعلان کردیاکہ اس کے گھرہونے والی واردات کے پیچھے حاکم بصرہ کا ہاتھ ہے۔ورنہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی سرکاری سرپرستی کے بغیرکوئی عام چوراتنی بڑ ی واردات کرسکے۔
یہ حربہ کامیاب رہاحاکم شہر نے کوتوال شہراوراس کے ماتحتوں کاجیناحرام کردیااورحکم دیا جس طرح بھی ممکن ہوچورکوگرفتارکیاجائے اورمال برآمدکیا جائے۔پولیس سرتوڑکوشش کے باوجودکیس حل کرنے میں ناکام رہی اورکوتوال نے حاکم کے سامنے ناکامی کااظہارکیاتووہ بھڑک گیا اوراعلان کیاکہ اگرکوتوال مال مسروقہ کی برآمدگی میں مزیدایک ماہ ناکام رہاتو اس کاسرقلم کردیاجائے گا۔اپنی جان کویوں خطرے میں پاکرسیدھاجیل گیااوروہاں صبح وشام عباس بن الخیاطہ کی خدمت شروع کردی۔چوتھے ہفتے عباس نے اس سے پوچھا ’’خدمت توبہت ہوگئی اب مقصد بتا؟‘‘اس نے ساراماجرابیان کرکے کہا’’میری جان خطرے میں ہے ،اس کیس کوحل کرنے میں میری مددکیجئے اورصرف اتنابتادیجئے کہ اتنی بڑی واردات کرنے کی اہلیت رکھنے والے چوراس علاقے میں کون کون ہیں؟’’عباس مسکرایا اور بولا: غیرت مند لوگ دوستوں کی مخبریاں نہیں کیاکرتے ،یہ کہہ کراس نے اپنادامن اٹھایا اورمسروقہ جواہرات نکال کر یہ کہتے ہوئے اس کے ہاتھ پررکھ دئیے کہ’’تیری خدمت کے سبب تیرا حق مجھ پرواجب ہوچکااورغیرت مندلوگ کسی کاحق اپنی جانب نہیں چھوڑتے۔ یہ جواہرات لے، بصرے سے فرارہوجااورساری زندگی عیش کر‘‘۔کوتوال جیل سے نکلااورسیدھا حاکم کے پاس جاپہنچا،جواہرات پیش کرکے برآمدگی کاتمام احوال بھی بیان کردیا۔
حاکم نے مال اس کے مالک کے حوالے کیا اوراگلے روزعباس کوجیل سے اپنے ہاں طلب کیا، اپنے گھرپراس کی بیڑیاں کھلوائیں، اسے غسل کروایا،اعلیٰ درجے کا لباس زیب تن کروایا اور پورادن مختلف انواع کے ماکولات ومشروبات سے تواضع کی،رات ہوئی تو اپنے ہی عالیشان بیڈ روم میں اسے سلا دیا۔اگلادن طلوع ہواتوپاس بلایا اور کہا:میں جانتا ہوں کہ اگرایک لاکھ کوڑے بھی تمہیں لگوا دوں،تب بھی تمہاری زبان نہیں کھلوا سکتامگرمیں نے کل سے تمہیں اپناذاتی مہمان بنا رکھاہے،ہرلحاظ سے تمہاری مہمان داری کی ہے اور اکرام میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔میں وعدہ کرتاہوں تمہاری سزامعاف کردوں گااورجیل سے بھی خودکورہاسمجھو،بس از راہ مہربانی صرف اتنا بتادوکہ جیل میں رہتے ہوئے یہ واردات کیسے کی؟ عباس مسکرایااورکہا’’یہ معاملہ ذراگھمبیرہے اس کیلئے باقاعدہ’’ڈیل‘‘کرنی ہوگی جس میں میرے ساتھیوں کوبھی تحفظ حاصل ہو‘‘۔حاکم مان گیا اوریوں بصرے کے چور اور حاکم کے مابین آج کی زبان کے مطابق ایک’’قومی مفاہمتی آرڈی نینس‘‘ کے خدوخال طے ہونے شروع ہوئے۔ ’’ڈیل‘‘کے مطابق عباس نے یہ شرط منوائی کہ اس کے اور اس کے ساتھیوں کے تمام اگلے پچھلے جرائم معاف ہوں گے اوراس سے گزشتہ چوریوں کامال اورحساب کتاب نہیں لیاجائے گاجبکہ حاکم نے یہ شرط منوائی کہ وہ اوراس کے ساتھی توبہ کریں گے اورگارنٹی دیں گے کہ آئندہ چوری کی کوئی بھی واردات نہیں کریں گے۔
عباس اورحاکم نے ایک دوسرے کی شرائط مان لیں’’ڈیل‘‘کی پاسداری کے وعدے بھی کرلئے اور حلف بھی اٹھا لئے چنانچہ’’مفاہمتی آرڈی نینس‘‘کااجراہوتے ہی عباس نے اپنی آخری چوری کاپوراماجرابیان کردیا کہ کس طرح جیلر کو ایک ہزاراشرفیاں بطوررشوت دے کروہ جیل سے رات ہوتے ہی نکلااورکس طرح اس قلعے کا حفاظتی نظام درہم برہم کر کے اسی رات جواہرات چرا کرحسب وعدہ سورج نکلنے سے قبل جیل واپس آگیا، حاکمِ بصرہ نے عباس کورہائش مہیاکردی اوراس کیلئے ماہانہ وظیفہ مقررکردیاتاکہ اس کی تمام ضروریات پوری ہوتی رہیں جبکہ عباس اوراس کاگروہ بھی’’ڈیل‘‘کی تاحیات پاسداری کرتارہا اوریوں اہل بصرہ کوہمیشہ کیلئے چوری کی وارداتوں سے نجات مل گئی۔
پرانے وقتوں کے وہ انسان چونکہ ترقی یافتہ نہ تھے بلکہ پورے ہی’’دقیانوسی‘‘تھے اس لئے ان کے چوربھی معاشرے کے مجموعی مزاج کے مطابق ’’وضع دار‘‘تھے۔وہ غیرت کی بات بھی کیا کرتے تھے اوروعدوں کی پاسداری میں بھی اپنی پوری زندگی بتادیاکرتے تھے۔ہم آج کے انسان ہیں،نہایت ترقی یافتہ اس لئے پرانے وقتوں کی وہ’’خرافات‘‘ہم میں نہیں پائی جاتیں البتہ ایک مسئلے میں ہم بھی اہل بصرہ کے ہم پلہ ہیں ہمارے ہاں بھی اہل بصرہ کی طرح چوری کی ایسی وارداتیں ہوتی ہیں جنہیں ثابت کرنا محال ہوجاتاہے۔ میرا اشارہ ان بیوقوفوں کی جانب ہرگزنہیں جودرے سے دس ہزارکی ٹی ٹی منگواتے ہیں اوراس کے زورپرکسی امیرکے گھرسے لاکھوں یا بڑا تیر مارا توکسی بینک سے کروڑڈیڑھ کروڑلوٹ لیتے ہیں اورمہارت کایہ حال ہوتاہے کہ اگلے ہی دن پولیس افسرسینہ تان کے اعلان کررہاہوتاہے کہ ’’ہم ملزمان کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں‘‘ اور پھرایک روزتوپولیس مقابلے میں مارے جاتے ہیں یاگرفتارہوکرسلاخوں کے پیچھے پہنچ جاتے ہیں۔
میرااشارہ ان کی جانب ہے جوواردات سے قبل بھی محترم یامحترمہ ہوتے ہیں،واردات کے دوران بھی ان کامقام یہی ہوتاہے اور واردات کے بعدتوکرہ ارض پران سے بڑا مظلوم کوئی نہیں ہوتا۔وہ بڑے دھڑلے سے ٹی وی کی کھڑکی سے ہمارے گھروں میں جھانک کرمنہ چڑاتے ہیں کہ اگرہم چورہیں تودس سال میں ثابت کیوں نہیں ہوا،ان کی وارداتوں کاحجم اتنابڑاہوتاہے کہ بیرونِ ملک محلات کے محلات تعمیرہوجاتے ہیں۔ ایک ایک کروڑپاؤنڈسے زائد مالیت کاتوان کا صرف ایک نیکلس ہوتاہے۔
(جاری ہے)