ہم ایک ہنگامہ خیز عالمی تہذیب میں زندگی کر رہے ،ہمارے گرد روزے اختیاری کی ایک نئی دیوار چن دی جاتی اور ہم اس دیوار کو چاٹنا شروع کر دیتے ہیں ،جب ہم اسے اتنا چاٹ چکے ہوتے ہیں کہ اس کے پار دیکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو اگلے ہی روز یہ دیوار پھر دبیز ہوجاتی ہے ،اس پر ہمیں کوئی حیرت بھی تو نہیں ہوتی ، توگویا ہم یاجوج ماجوج ٹھہرے ؟ ایسا بھی ہرگز نہیں ہے کہ ہمارا قومی تشخص سرے سے تحلیل ہوگیا ہو ،ہاں مگر یہ وقت کے ساتھ ساتھ مسخ ہونے کے عمل سے ضرور گزر رہا ہے ۔ہمارے وجود خود ہم پر گراں بار ہونے لگے ہیں ،ہماری حیثیت کاتوزن مسلسل بگڑ رہا ہے اور ہمیں اس کی فکر بھی لاحق نہیں ہے ،ہم اپنے آپ سے گریز کی صورت حال میں جی رہے ہیں ،ہم سے ہمارے اپنے آپ میں جینے کا حق چھینا جارہا ہے ۔ہم روایتی قوم پرستی کے خول میں پناہ لینے کی طرف مائل ہیں ۔ہم اپنے ارد گرد کھڑے ہونے والے بحرانوں کے حصار توڑنے تو کجا ان کے احساس سے بھی عاری ہوتے جارہے ہیں ۔
جبر کی ایک رت ہے جوطویل ہوتی جارہی ہے ،پہلے زبان اور اب قلم ،شب زادوں کا اقتدار ہو تو سب روا ہوتا ہے ،اف کی اجازت نہیں ہوتی ۔ یووال نوح کہتا ہے “قوم پرستی ایک فرار پسندانہ لذت ہے جوپوری انسانیت اور پورے حیاتیاتی کرہ کو تباہی کا شکار کرسکتی ہے۔ مگر پھر بھی ،انسان بے چارہ کدھر جائے ،کہیں تو پناہ حاصل کرنی ہی ہے ۔ہمسایہ ممالک کی طاقت کا ڈر ہی نہیں ایک عالمی جنگ کا خوف بھی اس کی رگ و پے میں سمائے جاتا ہے ،معاشی تنگی تو ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے،ہر جگہ متوسط طبقہ ہی کچلے جانے کے احساس میں گھائل ہے ،اسے اپنے رشتوں ناتوں کے تہس نہس ہونیکاغم کھائے جاتا ہے ۔ یہاں فقط اقتصادیات بڑا مسئلہ نہیں تہذیبی زوال کی ہنگامہ خیزی بھی ایک بڑھتی ہوئی پریشانی ہے ،عدم برداشت عدم استحکام کا باعث ہے جو ہمارے بس سے باہر ہوتی جارہی ہے ۔ہمیں ایک سخت گیر سیاسی کلچر کا بھی سامنا ہے جو خود غرضی کو فروغ دے رہا ہے ،جو اپنے اور اپنے خاندان یا اپنی سیاسی جماعت کے مفادات کے دائرے میں رہ کر سب کچھ کرنے میں عافیت پاتا ہے ،اسے سیاسی کارکنوں کی بڑھتی ہوئی مشکلات سے بھی کچھ واسطہ نہیں ۔’’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘‘ کا ادراک تو فیض صاحب نے دیا اور یقینی ہم نے خود بنالیا، یہ آہوں کا سفر ہے جسے ہم طے کر رہے ہیں ،ہر ایک اپنے سامان سفر کے لئے کوشاں ہے حالانکہ دنیا کا ساز و سامان تو دنیا ہی میں رہ جاناہے ، فکر مال سے فرصت بھی تو نہیں کہ اپنی حالت زار پر گھڑی بھر نظر ڈال سکیں ۔جوافتادگان خاک کو چھوڑ کر آسودہ ماحول میں جابسے تھے آئین کے پاسدار ،بنا شہادتوں کے انہیں ہر ایک جرم سے بری کئے جاتے ہیں ، جشن مرگ انبوہ کا سماں ہے ’’کسے خبر ہے کہ لحظہ لحظہ لرزتے رہتے ہیں سب گھروندے،ہمارے اندر ہر ایک منظر بچشم تر ہے کسے خبر ہے ؟‘‘سودوں زیاں پر دھیان کئے بغیر معیشت کی نائو کھیئے جانے والے ہمیں تحت الثری کی اور دھکیل رہے ہیں اور ان کے گماشتے اس زعم میں کہ ہم منزل مراد پا لینے کے قریب ہیں ۔ دراصل ہم ناکامیوں کی مٹی میں گندھی کامیابیوں کے عادی ہو چکے ہیں، وہ جو آگ سے کھیلنے کی قدرت کے گمان کو حرز جاں بنالیں وہ عقل کی بجائے دل کے فیصلوں کے محتاج بن کے رہ جاتے ہیں ،حقیقت اور مجاز کا فرق ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔ سیاست کار ہوں ،سفارتکار ہوں کہ صاحبان اقتدار ،سب کے سب آنے والے وقت کے نئے وجودی خطرات کو بھانپ ہی نہیں پارہے ،بین الاقوامی سامراج نے ہمیں اس سمت سے بیگانہ رکھا ہوا ہے ،ہم تو اس قدر ناشناس ہیں کہ ماحولیاتی چیلنجز کا شعور و ادراک تک نہیں رکھتے ۔ٹنوں پر مشتمل فضلہ جو عید قربان پر جمع ہوا ہم نے گلی محلوں تو کیا شہر کی بعض سڑکوں کی دونوں جانب بکھیر دیا ،اس سے اٹھنے والا تعفن بیماریوں کا سبب بن رہا ہے تو بلدیہ کیونکر توجہ کرے ،مسائل در مسائل لاپروائی آب و ہوا کو مکدر کر رہی ہے کیا خبر کتنے متاثرین ہلاکت کی نذر ہوتے ہیں ،اپنی موت کے ڈر سے تو غافل ہیں ہی ،ان معصوم بچے بچیوں کا کیا قصور ہے جو ہمارے پیدا کردہ ماحولیاتی خطرات کی زد میں ہیں ۔ہر پل بگڑتے ہوئے ماحولیاتی توازن کی قیامت خیزی نے شہری اور دیہی حیات کو تہہ وبالا کر رکھا ہے ۔اس تباہی کو جانچنے کے لئے ہم نے کبھی بجٹ میں اس کے لئے سائنسی تخمینوں کی گنجائش کا ذکر ہی نہیں کیا ۔گرین ہائوس گیسوں کا بڑھتا ہوا اخراج ہمارا عرصہ حیات گھٹا رہا ہے جبکہ یورپ ، امریکہ اور جاپان سائنسدان ہی نہیں سیاستدان بھی ایسے خطرات سے نمٹنے کی راہیں تلاش کرتے رہتے اس ان خطوں کی اوسط عمر زیادہ ہے۔