(گزشتہ سے پیوستہ) لوگو!بتاؤ میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا؟ لوگوں نے جواب میں کہا یقیناً یقیناً اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آسمان کی طرف رخ کیا اور شہادت کی انگلی اٹھاکر فرمایا: اَللّهُمَّ اشْهَدْ،اَللّهُمَّ اشْهَدْ،اَللّهُمَّ اشْهَدْ. (اے اللہ آپ گواہ رہیے گا،اے اللہ آپ گواہ رہیے گا،اے اللہ آپ گواہ رہیے گا) -خطبے سے فارغ ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کا حکم دیا- اذان کے بعد ظہر کی تکبیر کہی گئی اور نماز ادا کی گئی- پھر عصر کی نماز کے لیے تکبیر کہی گئی اور نماز ادا کی گئی-یعنی دونوں نمازیں ایک ساتھ ادا کی گئیں- دونوں نمازوں کے لیے اذان ایک کہی گئی،اور تکبیریں الگ الگ ہوئیں۔
عرفات میں ایک جماعت خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی-انہوں نے پوچھا:حج کس طرح کیا جاتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:حج دراصل وقوفِ عرفات کا نام ہے، یعنی عرفات میں ٹھہرنا حج کرنا ہے-عرفات کا پورا میدان وقوف کی جگہ ہے- اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مشعر الحرام یعنی مزدلفہ کے لیے روانہ ہوئے-اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھےبٹھایا-آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اطمینان سےچلنےکاحکم فرماتے رہے-اس طرح مزدلفہ پہنچے-یہاں مغرب اورعشاء کی نمازیں ایک ساتھ ادا فرمائیں-یہ دونوں نمازیں عشاء کےوقت پڑھی گئیں-عورتوں اور بچوں کےلیےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحکم فرمایا کہ آدھی رات کے ایک گھنٹے بعد ہی مزدلفہ سے منی روانہ ہوجائیں تاکہ وہاں ہجوم ہونےسےپہلے شیطان کو کنکریاں مارسکیں- فجرکاوقت ہواتو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں منہ اندھیرے ہی نماز پڑھائی-پھرسورج نکلنےسے پہلےمزدلفہ سےمنی کی طرف روانہ ہوئے- جمرہ عقبہ(بڑے شیطان) پر پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سات کنکریاں ماریں-شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے عمل کو رمی کہتے ہیں-یہ کنکریاں مزدلفہ سےچن لی جاتی ہیں-ہر کنکری مارتے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ اکبر فرماتے رہے-اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پرسوار تھے-حضرت بلال اورحضرت اسامہ رضی اللہ عنہماآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے-حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی کی لگام پکڑ رکھی تھی اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوپر کپڑے سے سایہ کیے ہوئے تھے-اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خطبہ دیا-اس میں ایک دوسرے کے مال اور عزت کو حرام قرار دیا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو حرمت کا دن قرار دیااورفرمایا: اےلوگو!تمہارا خون،تمہارا مال اور تمہاری عزت اور ناموس تمہارے درمیان ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن تمہارے لیے حرمت کا دن ہے جس طرح اس شہر کی حرمت ہے اور جس طرح اس مہینے کی حرمت ہے-” یہ الفاظ کئی بار فرمائے آخر میں دریافت فرمایا:”اے لوگو!کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا-” لوگوں نے اقرار کیا-پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:”اب تم میں سے جو موجود ہے،وہ غائب تک یہ تبلیغ پہنچادے میرے بعد تم کفر کی تاریکیوں میں لوٹ نہ جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو- حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے یہ بھی فرمایا کہ وہ مجھ سے حج کے مناسک (ارکان) سیکھ لو کیونکہ ممکن ہے اس سال کے بعد مجھے حج کا موقع نہ ملے- (اور ایسا ہی ہوا کیونکہ اس حج کے صرف تین ماہ بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوگئی تھی)اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم منی میں قربانی کی جگہ تشریف لائےاور 63 اونٹ قربان فرمائے- یہ سب جانور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ ہی سے لائے تھے اور اپنے دستِ مبارک سے ذبح فرمائے-گویا اپنی عمر کے ہر سال کے بدلے ایک جانور قربان فرمایا- قربانی کے گوشت میں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے کچھ گوشت پکایاگیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تناول فرمایا-باقی اونٹوں کو ذبح کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا-کل سو اونٹ تھے-اس طرح 37 اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذبح فرمائے- حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان جانوروں کا گوشت اور دوسری چیزیں لوگوں میں تقسیم کرنے کا حکم فرمایا-منی کا تمام مقام قربانی کرنے کی جگہ ہےاس کے کسی بھی حصے میں جانورقربان کیاجاسکتا ہے- قربانی سے فارغ ہونے کےبعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سرمنڈوایا- سرمبارک کے بال صحابہ کرام میں تقسیم کیے گئے- اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی:ترجمہ :اےاللہ! سرمنڈوانے والوں کی مغفرت فرما-“سر منڈوانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کوحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نےخوشبو لگائی- اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ جانے کےلیےسواری پرتشریف فرماہوئے-مکہ پہنچ کرظہرسے پہلے طواف کیا-یہ طوافِ افاضہ تھا جوحج میں فرض ہے – اس کے بغیرحج نہیں ہوتا-پھرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےزم زم کےکنوئیں سےزم زم نوش فرمایا-کچھ پانی اپنے سرمبارک پربھی چھڑکا-پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منی واپس تشریف لےگئے-وہیں ظہرکی نمازاداکی- آپ صلی اللہ علیہ و سلم منی میں تین دن ٹھہرے- تین دن تک رمئی جمرات کی،یعنی شیطانوں کو کنکریاں ماریں – ہر شیطان کو سات سات کنکریاں ماریں-منی کے قیام کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ تشریف لائے اور صحابہ کرام کو حکم فرمایا:”لوگو!اپنے وطن لوٹنےسے پہلے بیت اللہ کا طواف کرلو-” اسے طوافِ وداع کہتے ہیں،یعنی رخصت ہوتے وقت کا طواف اور یہ ہر حاجی پر واجب ہے۔