چند سال پہلے کیپ ٹاؤن جنوبی افریقہ میں ایک ختم نبوت کانفرنس کے دوران میں نے قادیانیت کے حوالے سے ایک پہلو پر گفتگو کی گئی تھی جو الحمد للہ پسند کی گئی اور دنیا بھر میں اسے وسیع پیمانے پر پھیلایا گیا اور سناگیا۔ اس پر قادیانی حضرات کی طرف سے ایک اعتراض سامنے آیا ہے اور وہ بھی دنیا بھر میں پھیلایا گیا ہے۔ میں آج اس حوالے سے تھوڑی سی گفتگو کرنا چاہوں گا۔ میں نے یہ گزارش کی تھی کہ قدرت کا قانون یہ ہے اور حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کا تسلسل یہ بتاتا ہے کہ نئے نبی کے آنے سے مذہب بدل جاتا ہے۔چونکہ نبی وہ واحد شخصیت ہوتی ہے جس کی بات کسی دلیل کے بغیر ماننا ضروری ہوتی ہے، نبی جو کہتا ہے وہ دلیل ہوتی ہے، نبی مطلقاً مطاع ہوتا ہے ، تو نبی کے بدلنے سے اطاعت کا مرکز تبدیل ہو جاتا ہے۔
بنیادی طور پر یہ بات علامہ محمد اقبالؒ نے کہی تھی ، تو میں نے ان کی اس بات کو بنیاد بنایا تھا کہ قادیانی چونکہ نئی نبوت کی بات کرتے ہیں تو ان کا مذہب ہمارے مذہب سے الگ ہے، وہ اپنے مذہب کا نیا نام رکھیں۔ جس طرح یہودیت سے عیسائیت الگ ہوئی، نئے نبی، نئی وحی اور نئی کتاب کی بنیاد پر۔ اور جس طرح عیسائیت سے ہم مسلمان الگ ہیں، نئے نبی، نئی وحی اور نئی کتاب کی بنیاد پر۔ ہم حضرت موسٰی علیہ السلام اور توراۃ کو مانتے ہیں، حضرت عیسٰی علیہ السلام اور انجیل کو بھی مانتے ہیں، لیکن چونکہ ہم ان کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن کریم پر بھی ایمان رکھتے ہیں اس لیے ہمارا مذہب ان سے الگ ہے، جیسے کہ عیسائیوں کا یہودیوں سے الگ ہے۔ یہ میں نے بنیادی بات کی تھی، غلط یا صحیح اپنے مقام پر لیکن مذہب بہرحال تبدیل ہو جاتا ہے کہ اطاعت کا مرکز تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس پر قادیانی حضرات کی طرف سے یہ اعتراض و استدلال کچھ عرصہ پہلے سامنے آیا ہے اور دنیا بھر میں اس کو دوہرایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولوی صاحب حضرت موسٰی علیہ السلام کی بات کر کے سیدھا حضرت عیسٰی علیہ السلام پر چلے گئے ہیں، یہ درمیان میں جو انبیاء کرامؑ آئے تھے ان کے آنے سے تو مذہب نہیں بدلا تھا، ان کا ذکر مولوی صاحب نے کیوں نہیں کیا؟ بادی النظر میں یہ اعتراض سمجھ میں آتا ہے۔ اصل میں یہ اعتراض اس لیے پیدا ہوا کہ میری گفتگو میں کچھ اجمال رہ گیا تھا، میں نے پوری وضاحت نہیں کی تھی، میں معترضین کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے یہ سوال پیدا کر کے مجھے اپنی گفتگو کا اجمال دور کرنے کا موقع دیا ہے۔حضرت موسٰیؑ کے بعد حضرت عیسٰیؑ تک درمیان میں سینکڑوں نہیں، بعض روایات کے مطابق ہزاروں پیغمبر آئے ہیں، ان کے آنے سے مذہب نہیں بدلا، مذہب بدلا حضرت عیسٰیؑ کے آنے پر آخری مرحلے میں۔ اس کی دو وجوہات ہیں: (۱) ایک تو یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں حضرت عیسٰیؑ تک نبیوں کا آنا جاری تھا اور ختمِ نبوت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ حضرت عیسٰیؑ کو بھی خاتم الانبیاء کہا جاتا ہے لیکن بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر۔ چونکہ اس سے پہلے بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ جاری تھا اور ختم نبوت کا عقیدہ نہیں تھا اس لیے انبیاء کرامؑ کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ (۲) دوسری وجہ یہ بنی کہ حضرت موسٰیؑ سے شروع ہو کر حضرت زکریاؑ اور حضرت یحیٰیؑ تک جس نبی نے بھی اس دائرے میں نبوت کی بات کی اسے تسلیم کیا گیا، لیکن جب حضرت عیسٰیؑ نے نبوت کا دعوٰی کیا تو بنی اسرائیل کے یہود نے ماننے سے انکار کر دیا ۔ اس انکار کی بنیاد پر دونوں کے مذہب الگ ہو گئے۔ حضرت عیسٰیؑ کا انکار کرنے والے پہلے مذہب کے ماننے والے رہے، اور انہیں تسلیم کرنے والے نئے مذہب کے پیروکار بن گئے۔ ہمارے ہاں ایک تو یہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر یہ اعلان فرما دیا تھا کہ میں آخری نبی ہوں ’’لا رسالۃ بعدی ولا نبوۃ‘‘ میرے بعد نہ کسی کو رسالت ملے گی اور نہ نبوت ملے گی۔ اور دوسری بات یہ کہ وہ بنی اسرائیل کی طرز والی نبوت جسے قادیانی حضرات ’’امتی نبی‘‘ کہہ کر اپنا دعوٰی منوانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ صورت حضورؐ کے زمانے میں پیدا ہوئی تو آپؐ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مسیلمہ کذاب کے بارے میں روایات اٹھا کر دیکھ لیں، وہ حضورؐ کے مقابلے پر مستقل نبوت کا نہیں بلکہ امتی نبی ہونے کا دعویدار تھا۔ وہ جناب نبی کریمؐ کا کلمہ خود بھی پڑھتا تھا اور لوگوں سے بھی پڑھواتا تھا، یہ اقرار کروا کے پھر اپنی بات کرتا تھا وہ رسول ہیں اور میں بھی رسول ہوں۔ یہی امتی نبی کا تصور ہے۔ وہ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ اور پھر ’’لا الہ الا اللہ مسیلمۃ رسول اللہ‘‘ پڑھواتا تھا۔(جاری ہے)