سات سال بعد سعودی عرب اور ایران کے درمیان منگل کے روز باقاعدہ سفارت خانہ کھل گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان 2016ء میں شیعہ عالم نمری ال نمری کی سعودی عرب میں پھانسی کے بعد سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے تھے۔ ان سات سالوں کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی قسم کا رابطہ نہیں تھا۔ یمن کی جنگ بھی اسی دوران شرو ع ہوئی جس میں دونوں ملک کی پراکسی کام کررہی تھی‘ بلکہ بسا اوقات یمن جنگ کی وجہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑجانے کے خطرات بھی پیدا ہوچکے تھے۔ لیکن10مارچ 2023 ء کوچین نے پس پردہ اپنی اعلیٰ مگرموثر سفارت کاری کے ذریعے ان دوعظیم اسلامی ملکوں کے درمیان نہ صرف غلط فہمیاں دور کرائیں بلکہ سفارتی تعلقات بحال کرکے مشرق وسطیٰ میں امن ڈپلومیسی کو ایک نئے انداز میں متعارف کرایا ہے۔ دنیا کو اس بات پر اب بھی حیرت ہے کہ کس طرح چین نے ان دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کی راہیں ہموار کیں جبکہ ماضی قریب میں دور دور تک ان کے درمیان کسی بھی قسم کے مفاہمت اورتعلقات باہمی استوار ہونے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتاتھا۔
دراصل چین کی سفارت کاری آہستہ آہستہ ساری دنیا میں پذیرائی حاصل کررہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ چین کے موجودہ صدر کافلسفہ یہ ہے کہ اب ملکوں کے درمیان جنگ نہیں ہوئی چاہیے‘بلکہ بات چیت اور مکالمہ کے ذریعہ بگڑے اور کشیدہ حالات میں بہتری ہونے کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ عوام الناس کے بنیادی مسائل ہوسکیں اور دنیا قیام امن کی صورت میں پیچیدہ اقتصادی مسائل حل کرنے کی طرف یکسوئی کے ساتھ توجہ دے سکے۔ چین کے بھی بعض ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ امریکہ اور بھارت کے ساتھ لیکن اس کے باوجود چین نے کبھی بھی امریکہ یا بھارت کوجنگ کرنے کی دھمکی نہیں دی ہے۔ تاہم ان کے ایما پر بھی امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی پائی جارہی ہے۔ لیکن چین نے کبھی بھی فوجی طاقت کے ذریعہ تائیوان کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی‘ حالانکہ تائیوان حقیقی معنوں میں چین کاحصہ ہے‘ جبکہ امریکہ کاخیال اس سلسلے میں مختلف ہے یعنی چین کا حصہ نہیں ہے۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تائیوان کے بیشتر بزنس مین چین میں ہی تجارت کررہے ہیں‘ بلکہ کارخانے بھی قائم کئے ہیں۔چین کو امید ہے کہ امریکی جلد یا بدیر تائیوان کو بغیر کسی جنگ کے چین کے حوالے کردے گا‘ جس طرح برطانیہ نے ہانگ کانگ اورمیکائو کو سفارت کاری کے ذریعے چین کے حوالے کردئیے تھے۔ چنانچہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی سفارت کاری سے جوتعلقات بحال ہوئے ہیں بلکہ امن کوگہری تقویت حاصل ہوئی ہے آئندہ بھی چین کی مساعی سے شام اور لیبیا کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ شام کے صدر بشارت الاسد نے سعودی عرب سمیت بعض عرب ممالک کا حال ہی میں دورہ کیاہے جو اس بات کی غمازی کررہاہے کہ شام میں گیارہ سال سے جاری جنگ کو طرفین کے درمیان مکالمے کے ذریعے باعزت طریقے سے ختم کرناچاہتاہے۔ شام میں ہونے والی اس خانہ جنگی میں( جس میں بعض ممالک کے کردار کی نفی نہیں کی جاسکتی ہے) اب تک ہزاروں افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جبکہ لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ جنہوں نے قریبی ہمسایہ ممالک میں پناہ لے رکھی ہے ۔ جہاں ان کی زندگی جہنم سے کم نہیں ہے۔ لیبیا بھی تین حصوں میں بٹ چکاہے اور یہاں بھی وقفے وقفے سے جنگ جاری ہے۔ جس کے ختم ہونے کے اب واضح امکانات نظر آرہے ہیں۔ چین اپنی خاموش ڈپلوسی‘ کے ذریعے ان ممالک میں بھی قیام امن کے لئے کام کررہاہے۔ اس ضمن میں چین کی مدد خلیج کی ریاستیں اور ایران بھی کررہاہے تاکہ ان ممالک کے درمیان نہ صرف امن قائم ہوسکے بلکہ عوام دنیا میں ہونے والی حیرت انگیز ترقی کاحصہ بھی بن سکیں تجارت اور سائنس کے ذریعے چین کی سفارت کاری کا ماڈل یقینا امن پسند ملکوں کے لئے کشش کا باعث بن رہاہے۔ لیکن اس راہ میں بہت سی کہی اور ان کہی رکاوٹیں موجود ہیں۔ یہ رکاوٹیں وہ ممالک پیدا کررہے ہیں جن کو چین کی معاشی ترقی سے ایک قسم کا خوف پیدا ہوچکاہے۔ لیکن یہ محض ایک وہم ہے جو ممالک چین کی امن ڈیلومیسی میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی معیشت خراب نہیںہے بلکہ بعض شعبوں میں چین سے بہتر ہے لیکن بعض ممالک کو چین کی سرعت کے ساتھ معاشی ترقی ایک آنکھ نہیں بھارہی ہے حالانکہ چین کا یہ خوف بے بنیاد ہے۔ اگر چین معاشی ترقی کررہاہے تو دنیا بھی اس سے مستفید ہورہی ہے۔ معاشی ترقی یکطرفہ سفر نہیں ہے۔ بلکہ یہ معاشی ارتقاء کا ایک اجتماعی نظریہ ہے ۔ خود امریکہ اس نظریے کا حامل ہے اور امریکی ترقی سے دنیا مستفید ہوئی ہے اور اب بھی ہورہی ہے۔ جبکہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سات سالوں کے بعد سفارتی تعلقات قائم ہوگئے ہیں جس کے اثرات خصوصیت کے ساتھ پوری عرب دنیا پر پڑ رہے ہیں۔ عرب دنیا کی اکثریت سعودی عرب اور ایران کے درمیان قائم ہونے والے سفارتی تعلقات سے بہت خوش اورمطمئن ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں ’’احتیاط کی اشد ضرورت ہے‘‘ کیونکہ اس وقت بھی بعض ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی سے خوش نہیں ہے۔ جبکہ وہ اس ’’خطے‘‘ میں چین کی اچانک ’’آمد کو تہہ دل سے خوش آمدید نہیں کہہ رہے ہیں۔ تاہم اب مشرق وسطیٰ کے ممالک چین کی سفارت کاری سے فائدہ اٹھاکر اپنے اپنے ملکوں میں بہت سے اقتصادی مسائل حل کرسکتے ہیں تاکہ عوام خوشگوار معاشی زندگی سے فائدہ اٹھاسکیں۔ جس میں فلسطین کامسئلہ بھی بھی شامل ہے ‘ جس کو اگر چین نے اس خطے کے ممالک کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پرحل کرلیاتو دنیا میں جہاں جہاں بھی اس قسم کے تنازعات موجود ہیں‘ وہ بھی حل ہوسکیں گے اور دنیا قیام امن کی صورت میں جنگی تصورات کو کسی حد تک نابود کرکے ایک جنت نظیر دنیا پیداکرنے میں کامیاب ثابت ہوسکتی ہے۔