اہم خبریں

اُمہ کے ’’زوال‘‘کی اصل وجہ؟

اُمہ کے ’’زوال‘‘کی اصل وجہ؟

آج تک دنیا میں جتنی بھی اقوام نے ترقی کی ہے یا اقتدار کے سنگھاسن پر برا جمان ہوئی ہیں وہ اپنے عہد کی سب سے زیادہ اخلاق یافتہ اقوام تھیں، کیونکہ ’’حسن اخلاق‘‘کردار کا ایسا اہم ترین جوہر ہے جو ایک احسن معاشرے کی تشکیل میں بنیادی رول ادا کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نےحضور ﷺ کی ایک اہم اور بنیادی صفت بیان کرتے ہوئےفرمایا:ترجمہ: اوربیشک آپ نبی آخرالزمان ﷺ اخلاق حسنہ کےاعلیٰ ترین پیمانے پرہیں۔(القلم) اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے دین اسلام،شریعت مطہرہ اورقرآنی تعلیمات کو’’خلق عظیم‘‘ قراردیاہے،گویاحضورﷺ قرآن کریم کی ہر ایک آیت کاعملی نمونہ تھےکہ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسےکسی صحابیؓ نے نبی پاک ﷺ کے اخلاق حسنہ کےبارےمیں پوچھاتوانہوں نے ارشادفرمایا کہ’’کیا آپ نےقرآن کریم نہیں پڑھا ہے؟‘‘یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تصدیق فرمائی کہ نبی اکرم ﷺ کے اخلاق حسنہ قرآن کی تفسیر و تعبیر ہیں یعنی قرآن کریم جن اعلیٰ اعمال و اخلاق کی تعلیم دیتا ہے آپ ﷺ ان سب کا عملی نمونہ ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ’’خلق‘‘سے مراد دین عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام سے زیادہ کوئی محبوب دین نہیں ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ خلق عظیم سے مراد آداب القرآن ہیں یعنی وہ آداب جو قرآن نے سکھائے ہیں جن سب کا حاصل تقریباً ایک ہی ہے۔ رسول کریمﷺ کے وجود مبارکہ میں حق تعالیٰ نے تمام ہی اخلاق فاضلہ بدرجہ کمال جمع فرما دیئے تھے۔ آپ ﷺ کےاس حسن اخلاق،عفوودرگزراور نرم طبیعت ہونے کی وجہ ہی سے صحابہ عظام کو آپﷺ سے محبت اور انسیت پیدا ہوئی اور وقت کے ساتھ یہ اتنی بڑھتی چلی گئی کہ تمام صحابہ کرام ؓآپ کے ’’جان نثار‘‘ بن گئے۔ اللہ تعالیٰ حضورﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ترجمہ: اے محمد ﷺ آپ معافی کو اختیار کیجیے، بھلی باتوں کا حکم کیجیے اور جاہلوں سے منھ پھیر لیجیے!(العراف)

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ترجمہ: تو آپ ﷺ ان کو معاف کیجیے اور درگزر سے کام لیجیے۔ (المائد) بیشک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر ایک اور جگہ فرماتے ہیں:ترجمہ: اور چاہیے کہ لوگ معاف کریں اور درگزر سے کام لیں، کیا تم نہیں چاہتےکہ اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے۔(النور) ایک بارپھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:ترجمہ: اور برداشت کیجیے ان (تکلیفوں)کو جو آپ کو پیش آئیں ،(لقمان) بیشک یہ ہمت کےکاموں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ پھرفرماتے ہیں:ترجمہ: اورغصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے اور اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔(آل عمران) مذکورہ بالا آیات اور اس طرح کی دیگر آیات میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو عفو و درگزر کرنے کا حکم فرمایا ہے، صابرین اورکاظمینِ غیض کی تعریف فرمائی ہے اور اسے ہمت کےکاموں میں سےبتایا ہے اور یہ سب حسنِ اخلاق کے مختلف شعبے اورمرحلے ہیں جن کو اختیار کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسی بنیاد پر حضورﷺ نے پوری زندگی اخلاق حسنہ، حسن معاشرت، عمدہ طرز زندگی اور زندگی کے ہر شعبہ میں اچھے برتاو اور حسن سلوک کا عمدہ نمونہ اور عملی پیکر پیش فرمایا،حتیٰ کہ نبی مکرم ﷺ نے اخلاق حسنہ کی تعلیم، ترویج و اشاعت اور اس کی دعوت و تبلیغ کو اپنی بعثت کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا: یعنی میری بعثت ہی اس لیے ہوئی ہے کہ میں حیاتِ انسانی میں اخلاق حسنہ کے فضائل کی تکمیل کروں اور اسے کمال و عروج پر پہنچائوں چنانچہ آپﷺ نے امت کو اخلاق فاضلانہ و کریمانہ سے متصف اور مزین کرنے کے لیے عملی نمونہ بھی پیش کیااورمختلف مواقع پر قولی تعلیم بھی دی۔ حضور ﷺ کے بہت سارے محاسن اخلاق میں چندایک یہ ہیں کہ آپ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ بردبار، سب سے زیادہ بہادر، سب سے زیادہ انصاف پسند، سب سے زیادہ پاکدامن اور سب سے زیادہ سخی تھے، یہاں تک کہ کوئی رات ایسی نہیں تھی جس میں آپ ﷺ کے پاس کوئی درہم یا دینار بچتا ہو کہ آپ ﷺ رات آنے سے پہلے سب مستحقین میں خرچ کر دیتے تھے۔ آپ ﷺ اتنے باحیاتھےکہ اپنی نظریں کسی چہرے پر نہیں جماتے تھے، خود ہی اپنا نعل مبارک سی لیتے، کپڑوں میں پیوند خود ہی لگا لیتے، گھریلو کام کاج میں ازواج مطہرات سے تعاون فرماتے، غلام اور آزاد سب کی دعوت قبول فرماتے، ہدیہ قبول فرماتے خواہ دودھ کا ایک گھونٹ ہو، باندیوں اور مسکینوں کی حاجت روائی میں تکبر نہ فرماتے، ولیمہ کی دعوت قبول فرماتے، بیماروں کی عیادت کرتے،جنازوں میں تشریف لےجاتے،فقرا کےساتھ بیٹھتے، مسکینوں کے ساتھ کھانا تناول فرماتے، مزاح فرماتے، ہنستے، لیکن قہقہہ نہ لگاتے،کسی پر ظلم نہ کرتے، معذرت خواہ کا عذر قبول فرماتے، کسی کو حقیرنہ جانتے اور نہ ہی کسی پر برتری اختیارفرماتے۔خلاصہ یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی ذات اقدس میں تمام محاسن اور خوبیان جمع کر دی تھیں لیکن آج نبی پاک ﷺ کے پیروکار مسلمانوں کے اخلاق و اطوار کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ امت وہ اُمت ہی نہیں جس کے لئے نبی پاک ﷺ نے ایک احسن مسلم معاشرہ قائم کرنےکی یہ مثالیں قائم کیں، شائد ہم مسلمانوں کے زوال کی ایک اصل وجہ ہی ان کا اخلاقی زوال ہے۔ ہم عبادات نہ کرنے یا فرائض انجام نہ دینے کی وجہ سےمط معون نہیں ہو رہے بلکہ اس وجہ سے ہو رہے کہ ہم بددیانت ہیں، ایفائے عہد نہیں نبھاتے اور ان اخلاق و اطورار کا مظاہرہ نہیں کرتے جس کا مظاہرہ ہمارے نبی مکرم ﷺ نے فرمایا اور جس کے ہم ‘امتی’ ہونے کا دعوی کرتے ہیں!

متعلقہ خبریں