اہم خبریں

جوڈیشل کمیشن کالعدم، جسٹس فائز عیسیٰ کا تلخ ردعمل

٭ …سپریم کورٹ، 5 رکنی بنچ نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کو غیر آئینی قرار دے دیا، کام روکنے کا حکم! کمیشن نے کام روک دیا، جسٹس فائز عیسیٰ کا سخت ردعمل!O عمران خان کی میڈیکل رپورٹ، ’’منشیات کے استعمال، دماغی عدم توازن کی نشاندہی کی گئی ہے، عبدالقادر وفاقی وزیر صحت O ’’پی ٹی آئی کے چیئرمین اور ارکان کے خلاف 449 مقدمے درج کئے گئے ہیں، ساڑھے نوہزار (9½ ہزار) ارکان گرفتار،33 ملزم فوج کے حوالے کئے گئے ہیں‘‘ وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ O جہانگیر ترین، نئی پارٹی بنانے کا فیصلہ، بڑے بڑے سیاسی خاندانوں سے رابطے (جاگیرداروں کی نئی یونینسٹ پارٹی؟؟) Oکراچی: میں واٹر ٹینکر سے پانی خریدتا ہوں، بلاول زرداری O پنجاب میں داعش وغیرہ کے 12 بڑے دہشت گرد گرفتار O لاہور: پرویزالٰہی کے گھر پر دوبار ناکام چھاپےO پی ٹی آئی مزید 146 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے، کل 226 ہو گئے:رانا ثناء اللہO پی ٹی آئی کے مزید ارکان علی زیدی، ابرارالحق، فردوس عاشق اعوان، مراد راس وغیرہ کا پارٹی چھوڑنے کا اعلانO عمران خان نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اپنی بجائے سویپر (خاکروب) کو بھیج دیا، ضمانت خارجO بابر اعوان اور کنول شوذب، بیرون ملک چلے گئےO ڈی جی خان، عمران خان کی بہن عظمیٰ خان کے خلاف 5261 کنال اراضی غیر قانونی طور پر حاصل کرنے کا باقاعدہ مقدمہ۔
٭ …سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے جسٹس فائز عیسیٰ پرمشتمل جوڈیشل کمیشن کے قیام کو غیر آئینی قرار دے کر اسے کام کرنے سے روک دیا۔ اس معاملہ کے بارے میں مختصر سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سنایا گیا، آئندہ سماعت 31 مئی کو ہو گی۔ 5 رکنی بنچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔ چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر کے دوران سماعت ریمارکس سے ہی ہوا کے رخ کا اندازہ ہو گیا تھا۔ یہی ریمارکس ابتدائی مختصر فیصلے میں بھی شامل ہیں۔ ریمارکس کے مطابق’’حکومت نے کوئی کمیشن قائم کرنے کے لئے آئین کی دفعہ 17 اے کے تحت چیف جسٹس سے مشورہ اور اجازت ضروری تھی،ایسا نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں آزاد ادارہ ہے، حکومت نے چیف جسٹس سے مشاورت کے بغیر اپنی مرضی کے پسندیدہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنایا جو غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، حکومت کو ایسا کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں، کسی کمیٹی میں کسی جج کی شمولیت کا اختیار اور استحقاق صرف چیف جسٹس کو حاصل ہے‘‘ اس بارے میں سپریم کورٹ کے ماضی کے کچھ فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا۔ ٭ …سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ابتدائی طور پر وزیر دفاع خواجہ آصف کا سخت ردعمل آیا ہے اس کے الفاظ ناقابل اشاعت ہیں، آئین کے مطابق اگست میں موجودہ حکومت اور اگلے ماہ 16 ستمبر کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال، دونوں یکے بعد دیگرے رخصت ہو رہے ہیں۔ 16 ستمبر کو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ ملک کے چیف جسٹس کو بالکل غیر جانبدار، اعلیٰ قانون دان، متحمل مزاج اور کسی بھی تنازعہ سے مُبّرا ہونا چاہئے۔ افسوس کہ موجودہ اور آنے والے چیف جسٹس صاحبان کے فیصلوں اور اقدامات پر تنازع پیدا ہو گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل اور سابق گورنر پنجاب، معروف قانون دان سردار لطیف کھوسہ اور پیپلزپارٹی کے سابق وزیر قانون، سینٹ میں اپوزیشن لیڈر اور وزیر داخلہ چودھری اعتزاز احسن واضح بیان دے چکے تھے کہ جوڈیشل کمیشن غیر قانونی ہے، پہلی سماعت میں کمیشن ختم ہو جائے گا۔ لطیف کھوسہ نے جسٹس فائز عیسیٰ کو مشورہ دیا کہ وہ اس کمیشن کی سربراہی سے گریز کریں۔ مگر جسٹس فائز عیسیٰ نے ان مشوروں کے برعکس کمیشن کے احکام شروع کر دیئے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل درست اور آئینی ہے۔ آئین کی دفعہ 17 میں واضح طور پر درج ہے کہ کسی بھی جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لئے سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشورہ لازمی امر ہے۔ حکومت نے اس ضابطہ کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔ اس طرح سپریم کورٹ (دوسری عدالتیں بھی) کو اپنے تابع فرمان بنانے کی کوشش کی۔ یہ رویہ جاری رہا تو آئندہ حکومت کے خلاف کسی بھی فیصلہ پر اپنی مرضی کے پسندیدہ ججوں کا کمیشن بنا کر سپریم کورٹ کے فیصلوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔ دنیا بھر میں عدالتیں آزاد اپنے فیصلوں میں خود مختار ہوتی ہیں۔ افسوس کہ ہمارے ہاں عدلیہ کی آزادی مستحکم نہیں ہو سکی۔ حکومت کا یہ موقف بھی ناقابل قبول ہے کہ چیف جسٹس کی حیثیت متنازعہ ہو چکی ہے جبکہ جوڈیشل کمیشن کے ایجنڈے میں چیف جسٹس کے خلاف تحقیقات کا بھی اندراج ہے۔ ایک کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ ملک کے ہر شخص صدر، وزیراعظم وغیرہ کے خلاف کارروائی ہو سکتی مگر چیف جسٹس کے خلاف کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ کمیٹی کے ہر اجلاس کی صدارت چیف جسٹس نے ہی کرنا ہوتی ہے۔ آئین کے مطابق اپنے اوپر کسی الزام کے باعث وہ اجلاس ہی کی صدارت نہیں کرے گا، تو اجلاس ہی نہیں ہو گا اس سلسلے میں اہم خبر یہ ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ نے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی روک دی ہے۔ ٭ …افسوس کہ جناب جسٹس قاضی عیسیٰ کے بارے میں متنازع باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ انہوں نے جوڈیشل کمیشن کی طلبی پر آنے والے حضرات کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت جوڈیشل کمیشن نے کام روک دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کچھ تلخ باتیں بھی کہہ دیں۔ مختصر یہ کہ ججوں کے خلاف تحقیقات کون کرے گا؟ آئین میں کمیشن کے قیام کے لئے چیف جسٹس کی مشاورت کی کوئی شرط نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے تلخ ریمارکس اخبارات میں موجود ہیں۔ انہوں نے بار بار زور دیا ہے کہ کمیشن کا قیام قانون اور آئین کے تحت جائز تھا۔ انہوں نے اور اٹارنی جنرل نے ایک سے زیادہ بار زور دیا کہ آئین کی دفعہ 17 میں چیف جسٹس کے مشورہ کا کوئی ذکر نہیں، جب کہ چیف جسٹس، جسٹس منیب اختر نے سپریم کورٹ کے ہی دو فیصلوں کا حوالہ دیا اس میں ایک حوالہ خود ’جسٹس فائز عیسیٰ‘ کیس کا تھا۔ حکومت اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے مخالف حلقے اس فیصلہ کو اچھالیں گے۔ مجھے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ سردار لطیف کھوسہ کے مطابق صرف ساڑھے تین ماہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے والے جسٹس فائز عیسیٰ کو کسی متنازع معاملہ میں نہیں اُلجھنا چاہئے تھا مگر وہ الجھ گئے ہیں۔ ٭ …عمران خان کے سینئر ترین وکیل بابر اعوان اچانک پاکستان سے باہر چلے گئے۔ سیاسی حلقوں میں چہ مہ گوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔ بابر اعوان نے واپسی کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں۔ جی ایچ کیو پر حملہ کی ’’سرغنہ‘‘ قرار پانے والی کنول شوذب بھی پاکستان کو چھوڑ گئیں۔ ان کا نام ای سی ایل میں شامل ہے مگر وہ بہت ہوشیار نکلیں، ای سی ایل کے نفاذ سے چند گھنٹے پہلے ملک سے نکل گئیں۔ ٭ …قارئین کرام! موجودہ حالات نے پوری قوم کو سردرد اور اعصابی تنائومیں مبتلا کر دیا ہے۔ آیئے کچھ ہلکی پھلکی باتیں کریں۔ خبر یہ ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے اور پھر ان کی حکومت کو الٹانے والے ’بادشاہ گر‘ جہانگیر ترین نے نئی سیاسی پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ خبر کا اہم حصہ یہ ہے کہ جہانگیر ترین پنجاب اور دوسرے صوبوں کے اہم سیاسی خاندانوں سے رابطہ قائم کر رہے ہیں۔ مجھے ماضی میں پنجاب کی حکمران ’یونینسٹ‘ پارٹی یاد آ گئی ہے جو دوسری عالمگیر جنگ کے دوران طاقتور سیاست دان سر فضل حسین نے 1867ء میں مختلف جاگیر داروں کے حقوق کے نام پر قائم کی۔ یہ پارٹی 1947ء تک پنجاب پر چھائی رہی۔ سرفضل حسین، سر سکندر حیات اور خضر حیات اس پارٹی کے حکمران رہے۔ ان دنوں صوبے کے وزیراعلیٰ کو وزیراعظم کہا جاتا تھا۔ اس پارٹی میں مسلمان، ہندو سکھ جاگیردار شامل تھے۔ سر فضل حسین نے ایک بہت بڑا کام یہ کیا کہ پنجاب کے 15 ہزار دیہات میں تعلیمی سکول کھول دیئے۔ کالم میں جگہ کم ہے۔ اُردو میں اس پارٹی کو ’’اتحاد پارٹی‘ کہا جاتا تھا۔ اس پارٹی کا مولانا ظفر علی خاں کے زمیندار اخبار میں جس طرح پُھلکا اُڑایا گیا اس کا مختصر ذکر ان کے ایک طنزیہ دلچسپ قطعہ سے ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں ’’تیرے گورے گورے گال اتحاد…بلی گال اتحاد پارٹی…تیرے کالے کالے بال اتحاد پارٹی!…تیرے ساتھ جوگندر پال، اتحاد پارٹی! سارے ٹوڈی تیرے نال اتحاد پارٹی! (ٹوڈی، انگریزوں کے پٹھو!)

متعلقہ خبریں