اہم خبریں

پاکستان تحریک انصاف…ن…

چل اڑجارے پنچھی…کو اب یہ دیس ہوا بیگانہ…پاکستان تحریک انصاف کے ’’بنیرے‘‘ پر جس رفتار سے پنچھی آکر بیٹھے تھے اب اسی رفتار سے ایک ایک کرکے ’’بنیرے‘‘ سے اڑتے جارہے ہیں۔ انہوں نے جتنی ’’چوگ‘‘ چگنی تھی وہ ’’چگ‘‘ لی ہے جب ’’چوگ‘‘ ختم ہوئی تو ان کا ضمیر اور جذبہ حب الوطنی بھی بیدار ہوگیا۔ تادم تحریر تیس سے زائد ’’پنچھی‘‘ اڑان بھر چکے ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے۔ اُڑنے والوں کی اگلی منزل کسی سیاسی پارٹی کا ’’بنیرا‘‘ ہوگا۔ کس سیاسی رہنما میں انہیں وہ تمام خوبیاں دکھائی دیں گی جو ملک کی کسی اور سیاسی شخصیت میں نہیں ہوں گی۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ سیاست اور محبت کو عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے۔ محبت میں عبادت کا تو علم نہیں ہے کہ کون کون کہاں کہاں ہو عبادت کر رہا ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے سیاست میں جو عبادت کی جارہی ہے اس نے ملک بھر کے تمام طبقہ فکر میں ارتعاش اور اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ جسے دیکھتے ہوئے ہر سطح پر یہ احساس اجاگر ہو رہا ہے کہ ہم آج سے پچاس ساٹھ برس قبل جہاں کھڑے تھے۔ آج بھی وہیں کھڑے ہیں اور اگر یہی لچھن اور روش رہی تو شائد آئندہ پچاس برس تک بھی یہاں ہی کھڑے رہیں۔ وہی گھسا پٹا طرز سیاست اور حکمرانی۔ وہی تھانہ کچہری کی سیاست، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اگر پارٹی کو دھڑا دھڑ خیر آباد کہہ رہے ہیں تو یہ ’’تھانہ کچہری‘‘ کی سیاست کا ہی کمال ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) بھی اسی نوعیت کی بحرانی کیفیت سے گزر چکی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف نہ صرف ’’طوفانی‘‘ کیفیت سے گزر رہی ہے بلکہ اس پر شکنجہ‘‘ بھی ذرا سخت پڑا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں بھی مخالفین کو اسی طرح ڈرایا دھمکایا جاتا تھا اور یہ نعرہ زبان زد عام تھا کہ ’’لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو‘‘ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی عوام کی بات کی تھی، عام آدمی کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔ جبکہ روٹی، کپڑا اور مکان نعرہ تو اس قدر مقبول ہوگیا تھا جیسے کسی دور میں ملکہ ترنم نور جہاں کے گانے ’’اکھ لڑی بدوبدی‘‘ نے عوام میں مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کو اپنی سیاست کا محور و مرکز قرار دیا تھا۔ لیکن جلد ہی انہیں یہ ادراک ہوا کہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے بغیر سیاست میں کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور پھر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی میں جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے کی بھیڑ لگ گئی، لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو پر آزمائش اور اتبلا کا دور آیا حتیٰ کہ انہیں پھانسی دے دی گئی لیکن کیا مجال ہے کہ کسی نے رسمی ہی احتجاج کیا ہو۔ شہد کی مکھی کی طرح ان کے اردگرد منڈلانے والے منظر سے ایسے غائب ہوگئے جیسے ان دنوں سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار غائب ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی آج ذوالفقار علی بھٹو جیسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان کی مقبولیت کا گراف تیزی سے بڑھتا ہوا دیکھ کر دیگر سیاسی جماعتوں کو خیر آباد کہنے والوں کا رش لگ گیا۔ مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا… ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی قوت کا سورج جب نصف النہار پر تھا تو ایک موقر روزنامے میں ایک کارٹون شائع ہوا تھا جس میں دریا میں ایک کشتی دکھائی گئی تھی اور اس کشتی میں گنجائش سے کئی گنا زیادہ افراد کو سوار دکھایا گیا تھا۔ جس کا کیپشن تھا کہ کہیں یہ کشتی ان کے بوجھ سے ڈوب ہی نہ جائے اور بالآخر پانچ جولائی 1977ء کو پیپلزپارٹی کی کشتی کو اسی طرح ڈبو دیاگیا۔ جیسے آج پاکستان تحریک انصاف کی کشتی کو ڈبویا جارہا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہونے والے وفادار ثابت ہوں گے۔ ایسے لوگ سیاست کو ’’پیشہ‘‘ تصور کرتے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان کی ہی مثال لے لیں۔ مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے جب فیاض الحسن چوہان سر پر پٹی باندھ کر اور ٹرک پر کھڑے ہو کر یہ نعرہ لگاتے تھے کہ ہم بیٹے کس کے قاضی کے، قاضی حسین احمد تب امیر جماعت اسلامی تھے۔ وہ قاضی حسین احمد کو اپنا روحانی باپ بھی قرار دیتے تھے۔ شباب ملی کے ضلعی صدر کی حیثیت سے اور جماعت اسلامی کی بھرپور حمایت کے بل بوتے پر فیاض الحسن چوہان نے اپنی ساکھ بنائی اور پھر متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے اور پھر کچھ ہی عرصے بعد مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کرلی۔ جماعت اسلامی کو خیر آباد کہنے کے بعد فیاض الحسن چوہان نے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد پر ایسے گھٹیا الزامات لگائے کہ جن کا یہاں ذکر کرنا تو درکنار اشارتاً بھی ایک لفظ نہیں لکھا جاسکتا۔ خبر ہے کہ عمران خان سخت ذہنی دبائو کا شکار ہیں۔ ان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے لیکن انہیں اس حقیقت کا بغور جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ ان سے کیا کیا غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ جن کا خمیازہ وہ آج بھگت رہے ہیں اور نہ جانے کب تک بھگتے رہیں گے۔ کاش عمران خان سیاست کو کرکٹ کا کھیل نہ سمجھتے۔ کاش قومی اسمبلی سے استعفے نہ دیتے۔ کاش پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیاں تحلیل نہ کرتے اور مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کے لئے (ق) کے دروازے اسی طرح اوپن ہیں جس طرح سال کے بارہ مہینے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی رہتی ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ جس طرح مسلم لیگ (ج) سے (ن) نکلی۔ (ن) سے (ق) نکلی۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف سے بھی۔ پی ٹی آئی کی نظریاتی یعنی پاکستان تحریک انصاف (ن) نکلے گی۔

متعلقہ خبریں